![]() |
| Fairy Tales Story in Urdu |
This is one of those fairy tales stories in Urdu that touches the heart. This story teaches us what can go wrong in life when we lose confidence in ourselves. Many people give up and push their loved ones away without realizing how precious they are. This emotional story reminds us that we should fix our mistakes in time.
If you want to read such fairy tales stories in Urdu that give valuable life lessons, then you must read this story. To read more such beautiful and meaningful motivational stories, moral stories and other Urdu stories, every day, do visit our website World Ki Best Stories.
فیری ٹیلز اسٹوری ان اردو – اگر آپ کا خود پر سے یقین ختم ہو گیا ہے تو
کسی اپنے کو کھونے سے پہلے یہ کہانی ضرور پڑھیں
فیری ٹیلز اسٹوری ان اردو – اگر آپ کا خود پر سے یقین ختم ہو گیا ہے تو
کسی اپنے کو کھونے سے پہلے یہ کہانی ضرور پڑھیں
اگر آپ زندگی کے کسی ایسے موڑ سے گزر رہے ہیں جہاں خود پر سے یقین اٹھتا جا رہا
ہو، ہر فیصلہ غلط لگتا ہو، اور آپ اپنے آپ سےمحبت کرنے والوں کو صرف اس
لیئے خود سے دور کر رہے ہوں کیونکہ آپ کو لگتا ہے کے آپ اس پیار کے لائق نہیں
ہیں — تو میری یہ کہانی آپ کے لیے ہے۔
یہ صرف ایک فئیر ٹیل کہانی نہیں، بلکہ ایک آئینہ ہے جو آپ کو آپ کی غلطی سمجھنے اور
اُسے سدھارنے کا موقع دے سکتی ہے۔ اس کہانی میں ایک بیٹی اور اس کے والد
کے درمیان دوری کی وجہ اُن دونوں کی اندرونی ٹوٹی ہوئی سوچ تھی — لیکن جب بات
سمجھ آئی، تو راستہ بھی مل گیا۔ شاید یہ کہانی آپ کو بھی آپ کا راستہ دکھا دے۔ چلیں
کہانی شروع کرتے ہیں۔
راجکماری نے کھڑکی سے باہر جھانکتے ہوئے کہا
ذرا موسم تو دیکھیے ماں، آج تو پکنک کے لیے بہت ہی خوبصورت دن ہے۔
پھر راجکماری نے آواز لگائی
ماں، علیشہ کہاں ہے؟
ماں نے مسکراتے ہوئے جواب دیا
آہ، وہ رہی علیشہ
راجکماری بولی جلدی کرو، ہمیں نکلنا ہے۔ باقی سب لوگ ہمیں جنگل کے راستے میں ملنے والے ہیں۔
علیشہ دروازے کے قریب آئی، لیکن اُس کا چہرہ اداس تھا۔
آپ لوگ ہی چلے جائیں راجکماری، میں آپ کے ساتھ نہیں جا پاؤں گی۔
کیا؟ کیوں؟ تم نے وعدہ کیا تھا کہ ہم ساتھ پکنک پر جائیں گے راجکماری نے حیران ہو کر پوچھا۔
علیشہ نے نظریں جھکا لیں اور آہستہ سے بولی
مجھے معلوم ہے... لیکن سچ یہ ہے کہ میرے والد بیمار ہیں۔ مجھے ان کے پاس رہنا ہے۔
راجکماری کا دل بھر آیا۔ اُس نے نرمی سے کہا
اوہ... اگر تم چاہو، تو ہم اپنی پکنک کینسل کر سکتے ہیں۔
علیشہ نے نرمی سے کہا
نہیں نہیں راجکماری، آپ جائیں... اور خوب مزے کریں۔
راجکماری نے حیرت سے پوچھا
تم واقعی نہیں آ رہیں؟
علیشہ نے مسکرا کر جواب دیا
ہاں، پکا نہیں آ رہی۔
پھر علیشہ آگے بڑھی اور راجکماری سے گلے ملی۔
راجکماری نے اُس کے کان میں آہستہ سے کہا
بائے، اپنا بہت خیال رکھنا۔
راجکماری واپس اپنی ماں کے پاس آئی۔ ماں نے شفقت سے پوچھا
اوہ میرے بچے، تمہاری پکنک کیسی رہی؟
راجکماری نے تھوڑا اداس ہو کر جواب دیا
بہت مزہ آیا، مگر علیشہ کی بہت یاد آئی۔ کیا وہ واپس آ گئی؟
ماں نے سر ہلاتے ہوئے کہا
نہیں، اُس کے والد ابھی بھی بیمار ہیں۔
راجکماری نے سوچتے ہوئے کہا
اوکے، کیا مجھے علیشہ کے والد سے جا کر ملنا چاہیے؟
ماں نے مسکرا کر کہا
ہاں، بالکل۔ یہ بہت اچھا خیال ہے۔
اسی لمحے سامنے سے علیشہ آتی نظر آئی۔ اُس نے جلدی سے کہا
نہیں نہیں، اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اور شکریہ راجکماری، تم نے مجھے یاد رکھا۔
راجکماری نے خوش ہو کر کہا
علیشہ میں نے تمہیں بہت مس کیا۔
علیشہ نے مسکرا کر جواب دیا
میں نے بھی تمہیں بہت یاد کیا کیسینڈرا۔ پتاجی کی طبیعت اب بہتر ہے۔
پھر علیشہ پوچھنے لگی
آج تم نے کیا کیا؟ سب کچھ بتاؤ، اگر تم تھکی ہوئی نہیں ہو... ورنہ پھر چھوڑ دیتے ہیں۔
کیسینڈرا نے ہنستے ہوئے کہا
ارے نہیں! میں تو انتظار کر رہی تھی کہ تمہیں سب کچھ بتاؤں۔ چلو، میرے ساتھ بیٹھو۔
دونوں بیٹھ کر باتیں کرنے لگیں۔ وہ ہنسی خوشی پکنک کی باتیں کر رہی تھیں اور ساتھ میں کوکیز بھی کھا رہی تھیں۔
اتنے میں ایک کوکی علیشہ کے ہاتھ سے پھسل گئی اور راجکماری کی ڈریس پر گر گئی۔
علیشہ فوراً گھبرا کر بولی
اوہ! مجھے معاف کرنا... میں نے جان بوجھ کر نہیں کیا، سچ میں... مجھے معاف کر دو۔
راجکماری نے مسکرا کر کہا
کوئی بات نہیں علیشہ، وہ تو بس ایک کوکی تھی۔
لیکن علیشہ پریشان ہو کر کھڑی ہو گئی اور جلدی سے بولی
میں ایسا کیسے کر سکتی ہوں؟ مجھے افسوس ہے، اب مجھے چلنا چاہیے۔ گڈ نائٹ۔
یہ کہہ کر وہ تیزی سے وہاں سے چلی گئی۔
راجکماری اُس کے پیچھے آواز دیتی رہی
علیشہ! علیشہ
اسی لمحے راجکماری کی ماں کمرے میں داخل ہوئیں اور پوچھا
کیا ہوا، بیٹا؟
راجکماری نے آہستہ سے کہا
مجھے... مجھے خود بھی نہیں پتا۔
ایک دن راجکماری اپنے باغیچے میں اداس بیٹھی ہوئی تھی۔ سورج کی دھوپ نرم سی تھی اور ہواؤں میں ہلکی خوشبو گھلی ہوئی تھی۔ اچانک سامنے سے علیشہ آتی نظر آئی، اُس کے ہاتھ میں خوبصورت پھولوں کا ایک گلدستہ تھا۔ وہ دھیرے دھیرے چلتی ہوئی راجکماری کے پاس آئی اور مسکرا کر گلدستہ اُس کے ہاتھ میں دے دیا۔
راجکماری نے خوش ہو کر گلدستہ لیا اور کہا
شکریہ علیشہ تم سے خوبصورت گلدستہ کوئی نہیں بنا سکتا۔
پھر وہ تھوڑا سا جھجکتے ہوئے بولی
سنو... میرے پیتاجی گاؤں والوں کے لیے ایک ڈانس کمپیٹیشن رکھنا چاہتے ہیں۔ کیا تم میری ٹیم میں شامل ہو گی؟
علیشہ نے نظریں جھکاتے ہوئے کہا
مجھے... مجھے ڈانس کرنا نہیں آتا۔
راجکماری ہنس کر بولی
میں نے تمہیں ڈانس کرتے دیکھا ہے، تم سے بہتر تو کوئی ڈانس نہیں کر سکتا دوپہر کو آنا، ہم تھوڑی پریکٹس کریں گے۔
علیشہ نے افسردگی سے کہا
اس سے تمہیں صرف مایوسی ہی ملے گی، میں کسی کام کی نہیں ہوں...
یہ کہہ کر وہ مڑنے لگی۔
راجکماری نے فوراً اُس کا ہاتھ پکڑ لیا اور نرمی سے بولی
علیشہ، روکو... کیا بات ہے؟ مجھے بتاؤ، ہم دوست ہیں نا؟ کچھ تو کہو۔
علیشہ نے آہستہ آواز میں کہا
کہنے کو کچھ بھی نہیں ہے، راجکماری۔
راجکماری نے مسکرا کر کہا
تم جانتی ہو، تم مجھے 'کیسینڈرا' کہہ سکتی ہو۔ راجکماری بولنے کی ضرورت نہیں ہے۔
علیشہ نے نظریں چراتے ہوئے جواب دیا
میرا یقین کرو کیسینڈرا... مجھے اب چلنا چاہیے۔ شکریہ۔
یہ کہتے ہی وہ پلٹ گئی اور خاموشی سے وہاں سے چلی گئی، جبکہ راجکماری اُسے جاتا ہوا دیکھتی رہ گئی۔
اتنے میں راجکماری کی ماں باغیچے میں آتی ہے۔ وہ اپنی بیٹی کو اُداس بیٹھا دیکھ کر نرمی سے پوچھتی ہے
کیا بات ہے بیٹا؟ تم پریشان لگ رہی ہو۔
راجکماری آہستہ آواز میں بولتی ہے
علیشہ بھی نا... پتہ نہیں اُسے کیا ہو گیا ہے۔ کبھی وہ بہت چلبلی ہوتی ہے، ہنستی کھیلتی، سب سے باتیں کرتی ہے۔
اور کبھی اتنی خاموش، اتنی الگ تھلگ ہو جاتی ہے کہ کچھ سمجھ ہی نہیں آتا، ماں۔
یہ سن کر راجکماری کی ماں فکر مندی سے پوچھتی ہے۔
کیا تم نے اُس سے اس بارے میں بات کی؟ اُس سے پوچھا کہ کیا پریشانی ہے؟
راجکماری نے دھیرے سے جواب دیا
میں نے کوشش کی، ماں... لیکن وہ کچھ بھی نہیں بتاتی۔ بس چپ ہو جاتی ہے۔
ایک دن محل میں سب لوگ ڈانس کی پریکٹس کر رہے تھے۔ راجکماری کو خاص طور پر ڈانس سکھانے کے لیے ایک مہربان سی لیڈی ٹیچر آئی ہوئی تھیں۔ وہ راجکماری کو ڈانس کے اسٹیپس سمجھا رہی تھیں۔
دیکھیں راجکماری، آپ کی باہ یوں ہونی چاہیے... اور انگوٹھا اس طرح ہو۔ اب یہاں سے گھومنا ہے، نرمی سے۔
وہ نہ صرف سمجھا رہی تھیں بلکہ خود کر کے بھی دکھا رہی تھیں تاکہ راجکماری آسانی سے سیکھ سکے۔
راجکماری پُرعزم لہجے میں بولی
میں پھر سے کوشش کرتی ہوں۔
اور وہ دوبارہ ڈانس کرنے لگ گئی۔
سامنے صوفے پر علیشہ خاموشی سے بیٹھی یہ سب دیکھ رہی تھی۔ جیسے ہی اس نے راجکماری کو ڈانس کرتے دیکھا، وہ خود بھی اٹھ کھڑی ہوئی اور آہستہ آہستہ ڈانس کرنے لگی۔
سب لوگ حیرانی سے علیشہ کی طرف دیکھنے لگے، کیونکہ اُس کا انداز بےحد خوبصورت اور قدرتی تھا۔
ڈانس ٹیچر نے خوشی سے کہا
ارے علیشہ تمہیں تو بخوبی آتا ہے کہ ڈانس کیسے کیا جاتا ہے۔ پھر تم اسٹیج پر کیوں نہیں آتیں؟
یہ سن کر علیشہ گھبرا گئی۔ اُس نے نظریں جھکا کر بس اتنا کہا
مجھے... مجھے معاف کرنا، سچ میں معاف کرنا۔
اور وہ تیزی سے وہاں سے چلی گئی۔
راجکماری نے فوراً اسٹیج سے نیچے اُترتے ہوئے علیشہ کو آواز دی
علیشہ ! علیشہ... رکو
پھر راجکماری اپنی ماں کے پاس گئی اور جذباتی ہو کر بولی
ماں، آپ کو علیشہ کو ڈانس کرتے ہوئے دیکھنا چاہیے تھا۔ مجھے یقین ہے کہ اُس سے بہتر ڈانس کرنے والا کوئی نہیں۔ پھر بھی وہ ٹیم میں شامل نہیں ہونا چاہتی۔
راجکماری کی ماں نے نرمی سے کہا
تو پھر علیشہ کو کسی اور طریقے سے مناؤ، بیٹا۔
یہ سن کر راجکماری کے چہرے پر ایک چمک سی آ گئی۔
ہاں مجھے ایک زبردست آئیڈیا آیا ہے۔
اُس نے مسکرا کر سوچا۔
اگلے دن محل کے ہال میں راجکماری اسٹیج پر ڈانس کی پریکٹس کر رہی تھی۔ وہ بار بار گھومتی، ہاتھوں کو حرکت دیتی اور موسیقی کے ساتھ قدموں کی تال ملانے کی کوشش کرتی۔
سامنے صوفے پر علیشہ خاموشی سے بیٹھی سب کچھ دیکھ رہی تھی۔ اُس کی نظریں ہر لمحہ راجکماری پر جمی ہوئی تھیں۔
پھر اچانک راجکماری کا پاؤں پھسلا اور وہ زور سے اسٹیج پر گر گئی۔
اوفف راجکماری کے منہ سے درد بھری آواز نکلی۔
یہ منظر دیکھتے ہی علیشہ ایک دم گھبرا گئی۔ وہ فوراً کھڑی ہو گئی اور زور سے بولی
راجکماری! راجکماری
اور دوڑتی ہوئی اسٹیج کی طرف آئی۔
علیشہ نے راجکماری کو نرمی سے سہارا دیا اور اٹھا کر کھڑا کیا۔ راجکماری کے چہرے پر تکلیف صاف نظر آ رہی تھی۔
آہ... اوہ... اوہ میرا پاؤں راجکماری ہلکی آواز میں کراہ رہی تھی۔
علیشہ نے فکرمندی سے پوچھا
کیا تم چل پاؤ گی؟
پھر اس نے راجکماری کو بازو سے پکڑا اور سہارا دیتے ہوئے آہستہ آہستہ لے جا کر صوفے پر بٹھا دیا۔ علیشہ کے چہرے پر پریشانی اور فکر صاف جھلک رہی تھی۔
راجکماری صوفے پر بیٹھ کر کراہتے ہوئے بولی
بہت زیادہ درد ہو رہا ہے... اوچ آج کیسے ڈانس کر پاؤں گی؟ رول بالکل صاف ہے، ہر ٹیم میں دس ڈانسرز ہونے چاہیے۔ اگر میں نہیں ناچ سکی، تو میری وجہ سے ہماری ٹیم ہار جائے گی… سب میری وجہ سے۔
یہ سن کر علیشہ نے فوراً کہا
نہیں! نہیں، یہ آپ کی غلطی نہیں ہے... کیسینڈرا راجکماری آپ نے پوری محنت کی ہے۔
راجکماری نے علیشہ کا ہاتھ پکڑتے ہوئے دھیرے سے کہا
تمہیں... تمہیں میری جگہ لینی پڑے گی، علیشہ
علیشہ پیچھے ہٹتے ہوئے بولی
نہیں، نہیں یہ مجھ سے نہیں ہوگا، میں... میں اسٹیج پر نہیں جا سکتی۔
راجکماری کی آنکھوں میں نمی آ گئی
تمہیں سب کچھ آتا ہے، علیشہ تم اسٹیج پر آؤ گی تو ہماری ٹیم کو کم از کم ایک موقع تو ملے گا۔ اگر تم نے انکار کیا، تو مقابلے سے پہلے ہی ہمیں باہر کر دیا جائے گا۔
علیشہ... میرے لیے... ایک بار صرف میرے لیے، پلیز
یہ سن کر علیشہ خاموش ہو گئی۔ کچھ لمحے سوچنے کے بعد، اُس نے آہستہ سے سر ہلایا۔
پھر وہی ہوا جس کا سب کو انتظار تھا۔ علیشہ نے ہمت کر کے مقابلے میں حصہ لیا۔ جیسے ہی وہ اسٹیج پر آئی اور موسیقی چلی، اُس کے قدم خود بہ خود چلنے لگے۔ اس کا ہر موو، ہر گھومنا، ہر ہاتھ کا انداز سب کو حیران کر رہا تھا۔
پوری پرفارمنس کے دوران لوگ دم سادھے دیکھتے رہے، اور جب موسیقی رکی، پورا ہال تال سے گونج اٹھا۔
اعلان ہوا
بیسٹ ڈانسر کا ایوارڈ جاتا ہے — علیشہ کو
راجکماری کی آنکھیں خوشی سے چمک اٹھیں۔
یُو ہوو! وہ زور سے چیخی۔
علیشہ کے چہرے پر بھی خوشی تھی، مگر جب اُس نے ایوارڈ تھاما، تو وہ خاموشی سے اسٹیج سے نیچے اتری اور باہر کی طرف چل پڑی۔
راجکماری فوراً اس کے پیچھے بھاگی
علیشہ! علیشہ! رکو، پلیز
مگر علیشہ اُس وقت تک جا چکی تھی۔
یہ سب دیکھ کر راجکماری کی ماں راجکماری سے کہتی ہے، تم نے چوٹ لگنے کا ناٹک کیا ہے، ہے نا بیٹا؟
راجکماری اپنی ماں سے کہتی ہے، علیشہ کو اسٹیج پر لانے کا اور کوئی طریقہ نہیں تھا۔ مجھے پتہ ہے کہ اسے ڈانس کرنے کا بہت شوق ہے اور وہ ایک بہترین ڈانسر ہے۔
راجکماری کی ماں مسکرا کر کہتی ہے، تم واقعی ایک سچی دوست ہو۔
راجکماری تھوڑا سوچتے ہوئے کہتی ہے، مگر امی... اس کا برتاؤ کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا۔
ماں نرمی سے کہتی ہیں، میرے خیال سے اب وقت آ گیا ہے کہ تم معلوم کرو کہ وہ ایسی کیوں ہے۔ تم اس کے گھر کیوں نہیں چلی جاتیں؟
یہ سن کر راجکماری فوراً ایک گھوڑے پر سوار ہوتی ہے اور علیشہ کے گھر کی طرف روانہ ہو جاتی ہے۔ وہاں پہنچ کر وہ ایک درخت کے پیچھے چھپ جاتی ہے اور سب کچھ چھپ کر دیکھنے لگتی ہے۔
سامنے علیشہ اپنے والد کے پاس کھڑی ہوتی ہے۔ اس کے والد ہاتھ میں بندوق لیے نشانہ لگا رہے ہوتے ہیں اور غصے میں علیشہ سے کہتے ہیں، چلی جاؤ یہاں سے! میں نے کہا نا، چلی جاؤ۔
علیشہ پریشانی سے کہتی ہے، پتا جی، پلیز یہ سوپ تو پی لیجیے۔
والد غصے میں بولتے ہیں، سوپ پی لوں گا تو کیا میری ٹانگ ٹھیک ہو جائے گی؟ اس سوپ کو لے جاؤ! اور تم بھی کہیں چلی جاؤ تمہاری طرح میں یوں بیکار نہیں بیٹھا ہوں۔
یہ سن کر علیشہ نرمی سے کہتی ہے، پتا جی آپ کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے، پلیز تھوڑا آرام کر لیجیے۔
والد چلاتے ہیں، میں ٹھیک سے چل نہیں سکتا، تو تمہیں لگتا ہے کہ میں نکما ہوں؟
علیشہ کانپتے ہوئے کہتی ہے، نہیں تو
پھر والد غصے سے بولتے ہیں، تم نے میری زندگی کو نرک سے بھی بدتر بنا دیا ہے۔ چلی جاؤ یہاں سے کاش تم پیدا ہی نہ ہوئی ہوتیں۔
یہ بات سن کر علیشہ کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگتے ہیں وہ بس اتنا کہتی ہے، پتا جی... اور وہ بہت زور زور سے رونے لگتی ہے۔
یہ سب منظر راجکماری درخت کے پیچھے سے چھپ کر دیکھ رہی ہوتی ہے، اور اس کی آنکھوں میں بھی نمی آ جاتی ہے۔
راجکماری اپنے باغیچے میں منہ لٹکائے اداس بیٹھی ہوتی ہے۔ اتنے میں اس کی ماں آ کر اس کے پاس بیٹھ جاتی ہے۔
ماں نرمی سے پوچھتی ہے، کیسنڈرا میری بچی تم اتنی پریشان کیوں ہو؟
راجکماری اپنی ماں کو ساری بات بتاتی ہے۔ وہ کہتی ہے، علیشہ کے پتا جی اس سے بہت بُرا سلوک کرتے ہیں، امی۔ کوئی باپ اپنی بیٹی کے ساتھ ایسا کیسے کر سکتا ہے؟
اس کی ماں آہستہ سے جواب دیتی ہے، ماتا پتا اپنے بچوں سے بہت پیار کرتے ہیں، ہمیشہ۔
راجکماری فوراً بولتی ہے، لیکن یہ آدمی تو ایسا نہیں کرتا۔
ماں اس کے آنسو دیکھ کر کہتی ہے، چلو، کچھ پتہ کرتے ہیں۔ اپنے آنسو پونچھ لو بیٹا، علیشہ آ رہی ہے۔
اتنے میں علیشہ سامنے سے چلتی ہوئی آتی ہے۔ اسے دیکھ کر راجکماری فوراً کھڑی ہو جاتی ہے۔
علیشہ ایک پھولوں کا گلدستہ راجکماری کو دیتے ہوئے کہتی ہے، گڈ مارننگ راجکماری آپ کے پسندیدہ پھول لائی ہوں۔
راجکماری مسکرا کر پھول لے لیتی ہے اور پوچھتی ہے، کیسی ہو؟ لگتا ہے کل رات تم نے اچھی نیند نہیں لی۔
علیشہ ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ کہتی ہے، نہیں، میں ٹھیک ہوں۔
راجکماری پھر پوچھتی ہے، ایوارڈ ملنے پر تمہارے پتا جی بہت خوش ہوئے ہوں گے نا؟
یہ سن کر علیشہ کہتی ہے، اوہ، وہ تو بہت خوش ہوئے۔ انہوں نے تو مجھے ایک نیا ڈریس بھی لے کر دیا۔
پھر علیشہ جلدی سے کہتی ہے، اچھا، اب مجھے چلنا ہے، میں چلتی ہوں۔
یہ کہتے ہی وہ بھاگتی ہوئی وہاں سے چلی جاتی ہے۔
راجکماری واپس اپنی ماں کے پاس بیٹھ جاتی ہے اور کہتی ہے وہ جھوٹ بول رہی ہے۔ اگر اسے اتنی جلدی تھی تو وہ میرے لیے پھول کیوں لائی؟
یہ سب سن کر راجکماری کی ماں نرمی سے کہتی ہے
اصل میں علیشہ تم سے مدد مانگ رہی ہے، بیٹا۔ کیونکہ اسے لگتا ہے کہ اس کے پتا جی اس سے نفرت کرتے ہیں۔
وہ مزید سمجھاتے ہوئے کہتی ہے
لیکن بیٹا، ہم سب چاہتے ہیں کہ کوئی ہم سے محبت کرے۔ تمہاری دوستی اسے وہ احساس دیتی ہے۔ چاہے تھوڑی دیر کے لیے ہی سہی، جب وہ تمہارے پاس آتی ہے تو اسے سکون ملتا ہے۔ وہ جانتی ہے کہ اسے تمہاری ضرورت ہے۔ اور جب وہ واپس چلی جاتی ہے تو صرف اس لیے کہ تمہیں اداس نہ کرے۔
یہ سب سن کر راجکماری اپنی ماں سے پوچھتی ہے
پھر میں کیا کروں، ماں؟
راجکماری کی ماں محبت بھرے لہجے میں جواب دیتی ہے
بس جیسے تم ہو، ویسے ہی اس کے ساتھ رہو۔ شاید ایک دن وہ کھل کر تم سے سب کچھ کہہ دے۔
راجکماری سر ہلا کر دھیمی آواز میں کہتی ہے
ہمم۔۔۔
ہر روز علیشہ راجکماری کے لیے پھولوں کا گلدستہ لے کر آتی رہی۔ راجکماری کیسینڈرا نے علیشہ کے ساتھ ایک اچھی دوست بن کر رہنا جاری رکھا لیکن علیشہ کے رویے میں کوئی خاص بدلاؤ نہیں آیا۔
آخرکار کیسینڈرا نے فیصلہ کیا کہ اب سیدھے طور پر علیشہ سے بات کرنی چاہیے۔ وہ گھوڑے پر سوار ہو کر علیشہ کے گھر گئی اور حسبِ معمول درخت کے پیچھے چھپ گئی۔
اس نے دیکھا کہ علیشہ کے پتا جی غصے میں علیشہ سے کہہ رہے تھے۔
چلی جاؤ علیشہ میری زندگی کو اور بدتر مت بناؤ
یہ کہہ کر وہ گھر کے اندر چلے گئے۔
اتنے میں راجکماری درخت کے پیچھے سے نکل کر علیشہ کے سامنے آ گئی اور نرمی سے بولی
علیشہ...
علیشہ اسے اچانک سامنے دیکھ کر حیران ہو گئی اور بولی آپ یہاں راجکماری؟ آج پتا جی کا موڈ تھوڑا خراب ہے۔
راجکماری نے سنجیدگی سے کہا
مجھ سے کچھ مت چھپاؤ، علیشہ۔ کم از کم آج تو نہیں۔ پلیز۔
علیشہ نظریں چرا کر بولی
آپ یہاں سے چلی جائیں۔
اور یہ کہہ کر وہ خود بھی وہاں سے جانے لگی۔ راجکماری نے فوراً اس کا ہاتھ تھام لیا۔ دونوں رک گئیں... اور پھر ایک دوسرے کو گلے لگا لیا۔
راجکماری نے علیشہ کے کان میں دھیرے سے کہا،
مجھے پتہ ہے تم میرے بارے میں کیا سوچتی ہو۔ کیا میں اتنی بری ہوں کہ تم مجھ پر بھروسہ بھی نہیں کر سکتی؟ تم نے مجھے بتایا کیوں نہیں؟
علیشہ راجکماری سے آہستہ آواز میں بولتی ہے۔
میرے پتا جی مجھ سے نفرت کرتے ہیں… تو پھر کوئی اور مجھ سے محبت کیوں کرے گا؟
اتنے میں راجکماری کی ماں رانی صاحبہ، وہاں آ جاتی ہیں۔ وہ نرمی سے کہتی ہیں۔
تمہارے پتا جی تم سے نفرت نہیں کرتے، وہ اندر سے بہت تکلیف میں ہیں۔ میں ان سے جا کر بات کرتی ہوں۔
یہ کہہ کر رانی صاحبہ علیشہ کے گھر کے اندر چلی جاتی ہیں۔
اندر جا کر وہ علیشہ کے والد سے مخاطب ہو کر کہتی ہیں۔
مجھے کیسینڈرا نے بتایا کہ آپ ایک بہت اچھے نشانے باز ہیں۔ صاف ظاہر ہے کہ آپ اپنی ٹانگ کی چوٹ کی وجہ سے سیلا فوج میں شامل نہیں ہو سکتے۔ لیکن ہماری گھڑسوار سینا کو آپ جیسے لوگوں کی ضرورت ہے۔ اگر آپ چاہیں تو آپ ہماری فوج میں شامل ہو سکتے ہیں۔
یہ سن کر علیشہ کے پتا جی گھٹنوں کے بل بیٹھ جاتے ہیں اور جذباتی انداز میں کہتے ہیں۔
یہ میری خوش نصیبی ہوگی، رانی صاحبہ
رانی صاحبہ یہ سنتے ہی گھر کا دروازہ کھولتی ہیں۔ باہر راجکماری اور علیشہ کھڑی ہوتی ہیں اور خاموشی سے سب سن رہی ہوتی ہیں۔ رانی صاحبہ ہاتھ ہلا کر انہیں اندر بلاتی ہیں۔ دونوں آہستہ قدموں سے اندر آتی ہیں۔
اب کمرے میں رانی صاحبہ، راجکماری، علیشہ، اور علیشہ کے پتا جی کھڑے ہوتے ہیں۔
رانی صاحبہ نرمی سے علیشہ کے والد سے کہتی ہیں۔
آپ کی بیٹی کو لگتا ہے کہ آپ اس سے نفرت کرتے ہیں۔ کیا آپ کو نہیں لگتا کہ اسے ایک وضاحت کی ضرورت ہے؟ دیکھ لیجیے، آپ کی خاموشی نے اسے کتنی تکلیف دی۔
علیشہ کے والد آہستہ آہستہ بولنے لگتے ہیں
جب میں جوان تھا، میرا خواب تھا کہ میں مہاراج کی فوج کا سپاہی بنوں۔ میں نے بہت محنت کی، اور ایک دن میں کیمپ میں کپتان بننے ہی والا تھا۔ تبھی مجھے تمہارے پیدا ہونے کی خوشخبری ملی۔ اور میں بہت خوش تھا۔ خوشی میں میں نے ایک خطرناک پہاڑی راستہ چنا… اور میں گر گیا۔ میری ٹانگ اور کمر دونوں ٹوٹ گئیں۔ مجھے ٹھیک ہونے میں پورا ایک سال لگا… لیکن میں دوبارہ فوج میں شامل نہ ہو سکا۔
وہ رک کر گہری سانس لیتے ہیں، پھر کہتے ہیں
میں خود کو نکما سمجھنے لگا… اور وہ سارا غصہ میں نے تم پر نکالنا شروع کر دیا۔
کمرے میں خاموشی چھا جاتی ہے۔ سب لوگ—رانی صاحبہ، راجکماری اور علیشہ—ان کی باتیں خاموشی سے سن رہے ہوتے ہیں۔
علیشہ کے والد آنکھوں میں آنسو لیے بولتے ہیں
مجھے معاف کر دو، علیشہ… پلیز، مجھے معاف کر دو۔
علیشہ حیرانی سے کہتی ہے
کیا؟
وہ دوبارہ بولتے ہیں
میں خود کو نکما سمجھتا رہا، لیکن آج رانی صاحبہ نے میرا خواب، میرا بھروسہ، مجھے لوٹا دیا ہے۔
پھر وہ رانی صاحبہ کی طرف دیکھ کر کہتے ہیں
آپ نے میرے خواب کو پھر سے زندہ کیا ہے۔
یہ سن کر رانی صاحبہ سنجیدگی سے بولتی ہیں
تمہیں زندگی سے نا امید ہونے کی ضرورت نہیں تھی، آرنولڈ۔ اگر تم نے خود کو کمتر سمجھنے کے بجائے اپنی غلطی مان کر کسی سے مدد مانگی ہوتی… تو شاید تم اپنی بیٹی سے دور نہ ہوتے۔
علیشہ کے پتا جی آہستہ آواز میں بولتے ہیں
مجھے ڈر لگتا تھا… کہ میری اپنی بیٹی کہیں مجھے نکما نہ سمجھنے لگے۔
یہ سن کر رانی صاحبہ نے سنجیدگی سے لیکن نرمی کے ساتھ کہا
تو تم نے خود کو بچانے کے لیے علیشہ کو ہی نکما کہنا شروع کر دیا؟ بہت غلط ہے یہ، آرنولڈ۔ زندگی میں ہارنا کوئی شرمندگی کی بات نہیں۔ ہم سب غلطیاں کرتے ہیں۔
لیکن یاد رکھو — بغیر درد، قربانی اور محنت کے کوئی خواب کبھی پورا نہیں ہوتا۔
وہ تھوڑی دیر رکیں، پھر بولیں
تو تم نے ہار کیوں مان لی؟ تم نے اپنے زخموں کے ساتھ جینا کیوں نہیں سیکھا؟ تم نے اپنی بیٹی سے سچ کیوں نہیں کہا؟
پھر رانی صاحبہ نے نگاہ علیشہ کی طرف موڑی اور محبت بھرے لہجے میں بولیں
اور تم، علی شاہ... میری بیٹی کیسینڈرا نے تم سے کتنی بار پوچھا... تم نے اسے سب کچھ کیوں نہیں بتایا؟
رانی صاحبہ کی آنکھوں میں گہری سنجیدگی تھی۔
اگر تم دونوں — علیشہ اور کیسینڈرا — اپنی اپنی تکلیف ایک دوسرے سے بانٹ لیتیں تو یہ سب کبھی نہ ہوتا۔
کمرے میں مکمل خاموشی چھا گئی۔
رانی صاحبہ نے آخر میں کہا
غلط ہونے میں کوئی شرم کی بات نہیں، لیکن اپنی غلطی کو چھپا کر جینا… وہ سب سے بڑی شرمندگی ہے۔
پھر علیشہ نے آہستہ قدم رانی صاحبہ کی طرف بڑھائے اور بھرائی ہوئی آواز میں بولی
مجھے معلوم ہے کہ آپ سے جھوٹ بول کر اور آپ سے مدد نہ مانگ کر میں نے آپ کا دل دکھایا ہے۔
پھر وہ راجکماری کی طرف دیکھ کر بولی
راجکماری... نہیں، کیسینڈرا، مجھے معاف کر دو۔
راجکماری نے علیشہ کی طرف قدم بڑھایا اور دونوں گلے لگ گئیں۔ خاموشی میں صرف دل کی دھڑکنیں بول رہی تھیں — سچ، پچھتاوا، اور معافی۔
ایک اہم سبق
اگر کوئی چیز آپ کو اندر سے توڑ رہی ہو، تو خود کو کوسنا، خود کو نکما سمجھنا یا تنہا رہنا مسئلے کا حل نہیں ہوتا — بلکہ یہ دکھ کو اور بڑھا دیتا ہے۔
آپ کو بس یہ کرنا ہے۔۔۔
جو لوگ آپ کی فکر کرتے ہیں ان سے دل کا حال بانٹیں۔
اپنی غلطی کو تسلیم کریں اور اسے سدھارنے کی کوشش کریں۔
تب ہی آپ کو سکون اور مسئلے کا حل ملے گا۔
اور سب سے اہم بات
جو لوگ آپ سے پیار کرتے ہیں، ان کے لیے جینا آپ کا فرض ہے۔ کیونکہ وہی لوگ آپ کی طاقت ہوتے ہیں۔
زندگی میں کبھی کبھی ہم اُن لوگوں سے دور ہو جاتے ہیں جو ہمیں سب سے زیادہ چاہتے ہیں — صرف اس لیے کہ ہم خود کو اُن کے قابل نہیں سمجھتے۔ لیکن اصل میں جو لوگ ہمیں بے شرط محبت کرتے ہیں، اُن کا ساتھ ہماری سب سے بڑی طاقت ہوتا ہے۔ علیشہ نے بھی یہ سیکھا کہ خاموشی کا درد صرف تب تک رہتا ہے جب تک ہم اُسے بیان نہیں کرتے۔ جب اُس نے اپنے اندر کے جذبات کو سمجھا، اپنی غلطی کو مانا، اور اپنے والد سے بات کی — تو وہ راستہ مل گیا جہاں سے خوشیوں کا سفر دوبارہ شروع ہوا۔ شاید آپ بھی اسی موڑ پر ہوں۔ اگر ہاں، تو خود سے دور مت جائیں۔ اپنی غلطی سدھاریں، اپنوں کو سمجھیں — کیونکہ کبھی کبھی ایک چھوٹی سی ہمت، پوری زندگی بدل دیتی ہے۔
یہ کہانی آپ کو کیسی لگی؟
کمنٹ کر کے ضرور بتائیں، اور ایسی مزید کہانیاں پڑھنے کے لیے ہماری ویب سائٹ World Ki Best Stories کو ضرور فالو کریں۔ اور اپنے دوستوں اور رشتے داروں کے ساتھ شئیر کرنا بالکل نہ بھولیں تاکہ انہیں بھی آپکی وجہ سے کچھ سیکھنے کو ملے۔
روز کچھ نیا سیکھیں، کچھ نیا سوچیں، اور نئی زندگی کا آغاز کریں۔ پھر ملینگے ایک اور کہانی کے ساتھ۔ جب تک اپنا خیال رکھیں۔
اسٹوری کوئین اسماء
Read More Stories
I hope you liked this fairy tales story in urdu. You can read more interesting Fairy Tales Story, fairy tales stories, fairy tales stories in Urdu, Fairy tales story with moral, Short fairy tales story, Fairy tales story for kids, Very short fairy tales story with moral, fairy tale stories to read, Fairy tale stories to read online free, Fairy tale stories to read online, Short fairy tale stories to read, Beautiful Stories in Urdu Fairy Tales, Fairy Tales in Urdu new Stories, Pakistani Fairy Tales in Urdu, Fairy Tale kahaniyan, Princess Fairy Tales in Urdu, Stories in Urdu Fairy Tales new 2025, and much more interesting stories just right here motivational stories and moral stories for kids.
Also, read more interesting fairy tales posts in Urdu.
.png)

.png)