This is one of those fairy tales stories in Urdu that teaches us a deep and meaningful lesson about judging people only by their looks. Many of us forget that real beauty comes from the heart, not just from a pretty face. If you are someone who gives too much importance to physical appearance, then this story is especially for you.
Such fairy tales stories in Urdu help us learn valuable life lessons and change the way we think. Visit World Ki Best Stories daily to read more motivational stories, moral stories, fairy tales stories, and other life-changing Urdu stories.
اردو میں پریوں کی کہانی – کیا آپ بھی صرف خوبصورتی کو اہمیت دیتے ہیں؟ تو یہ کہانی آپ کے لیے ہے۔
کیا خوبصورتی صرف چہرے کی ہوتی ہے؟
کیا صرف چمکتا چہرہ ہی انسان کی اہمیت طے کرتا ہے؟
اگر آپ بھی کسی کو صرف اس کے لباس، رنگ، یا شکل دیکھ کر پرکھ لیتے ہیں۔۔۔ تو یہ کہانی آپ کے لیے ہے۔
ایک بادشاہ جو روز اپنی بیٹی کی خوبصورتی کا جشن مناتا ہے۔ ایک شہزادی جو صرف خوبصورتی کی قید میں پھنس کر
شرمندگی محسوس کرتی ہے۔ اور ایک شہزادہ… جو اصل چمک کو پہچانتا ہے۔ یہ صرف ایک افسانہ نہیں یہ کہانی ہے
اندرونی خوبصورتی کی غرور کے انجام کی اور اس سچ کی… جو چمکتی آنکھوں اور سادہ دلوں میں چھپا ہوتا ہے۔
اگر آپ کو سچ میں جاننا ہے کہ سب سے زیادہ چمکتا کون تھا؟ تو یہ کہانی آخر تک ضرور پڑھیں۔۔۔
بہت پرانی بات ہے، ایک بادشاہ سخت بیمار ہو گیا۔ لوگوں نے بہت علاج کروائے، مگر کوئی فائدہ نہ ہوا۔ آخر کار ایک بزرگ حکیم کو بلایا گیا۔ حکیم نے نبض دیکھی، غور سے بادشاہ کو دیکھا اور آہستہ سے بولا یہ کوئی عام بیماری نہیں، بلکہ یہ ایک شیطانی طلسم کا اثر ہے۔
شہزادہ جو اپنے والد سے بے حد محبت کرتا تھا، بے چینی سے پوچھنے لگا
حکیم صاحب! میرے ابا کی جان کیسے بچائی جا سکتی ہے؟
حکیم نے گہری سانس لی اور کہا
طلسم تو بہت طاقتور ہے، لیکن اس کی ایک ہی دوا ہے۔۔۔ خرگوش کے بل سے لی گئی مٹی۔ مگر شرط یہ ہے کہ وہ بل کم از کم دس سال پرانا ہو — اور ہمیں وہ مٹی تین دن کے اندر حاصل کرنی ہوگی۔
شہزادہ نے بغیر کسی ہچکچاہٹ کے کہا
مجھے بس بتا دیجیے کہ مجھے کیا کرنا ہوگا۔ میں دنیا کے آخری کونے تک جا سکتا ہوں — لیکن اپنے والد کی جان بچا کر رہوں گا۔
شہزادہ ہمت سے بولا میں وہ بل ضرور تلاش کروں گا! لیکن حکیم صاحب، میں کیسے پہچانوں گا کہ وہ بل دس سال پرانا ہے یا نہیں؟
حکیم مسکرا کر کہنے لگے، تمہیں صرف دل سے یقین رکھنا ہوگا، اور قدرت تمہاری رہنمائی کرے گی۔
یہ سن کر شہزادہ فوراً اپنے گھوڑے پر سوار ہوا اور جنگل کی طرف روانہ ہو گیا۔ راستہ کٹھن تھا، مگر اپنے والد کی محبت نے اسے تھکنے نہ دیا۔ وہ گھنٹوں تک جنگل میں گھوڑا دوڑاتا رہا مگر کہیں کوئی خرگوش نہ دکھائی دیا۔
اچانک ایک خرگوش سڑک پار کر کے باغ کی طرف بھاگا۔ شہزادے نے فوراً گھوڑے کو ایڑ لگائی اور خرگوش کے پیچھے دوڑ پڑا۔
شہزادہ خرگوش کے پیچھے پیچھے باغ میں داخل ہو گیا۔ وہ بہت دیر تک اس کا پیچھا کرتا رہا، یہاں تک کہ خرگوش ایک پرانی اور گہری غار میں گھس گیا۔ شہزادہ بھی اُس کے پیچھے غار میں چلا گیا۔
لیکن یہ غار ایک خطرناک دیو کا ٹھکانہ تھا۔
جیسے ہی شہزادہ اندر داخل ہوا دیو کی آواز گونجی
ہوں! دیکھو تو، ایک انسان! وہ بھی شہزادہ تمھاری ہمت کیسے ہوئی میری غار میں آنے کی؟
شہزادے نے عاجزی سے کہا
مہربانی کر کے مجھے جانے دیں، میں خرگوش کے بل کی مٹی لینے آیا ہوں۔ میرے والد بہت بیمار ہیں، اور صرف یہی مٹی اُن کی جان بچا سکتی ہے۔ میں وعدہ کرتا ہوں، جیسے ہی میں مٹی لے لوں گا، واپس آکر آپ کو جو سزا دیں گے، میں قبول کروں گا۔
مگر دیو ہنسنے لگا اور بولا
کیا میں پاگل ہوں جو تمہیں جانے دوں؟ تم اب یہاں سے کہیں نہیں جا سکتے۔
یہ کہہ کر دیو نے شہزادے کو پکڑا اور ایک لکڑی کے مضبوط بکسے میں بند کر دیا۔ شہزادہ بار بار چیختا رہا، مہربانی کر کے مجھے جانے دو
لیکن دیو نے اس کی ایک نہ سنی۔
دو دن اور دو راتیں گزر گئیں۔ شہزادہ بکسے کے اندر قید رہا۔ وہ نکلنے کی بہت کوشش کرتا رہا، مگر ناکام رہا۔ اُسے اپنے بیمار والد کی بہت فکر ہو رہی تھی۔ وہ بہت پریشان تھا۔
دوسری رات کے آخر میں، اچانک بکسے کا دروازہ خودبخود کھل گیا۔ شہزادہ حیران ہو گیا۔ باہر تیز روشنی پھیل رہی تھی۔ جیسے ہی وہ باہر آیا، اُس نے ایک حسین لڑکی کو دیکھا۔ وہ لڑکی روشنی میں چمک رہی تھی، جیسے کوئی نور کا پیکر ہو۔
شہزادہ حیران ہو کر اسے دیکھنے لگا۔ لڑکی مسکرا کر بولی
میں وہی خرگوش ہوں جس کا تم پیچھا کر رہے تھے۔ دیو نے مجھ پر جادو کر دیا تھا، جس کی وجہ سے میں دن میں خرگوش بن جاتی تھی اور رات میں اپنی اصل حالت میں واپس آتی تھی۔
شہزادہ فوراً بکسے سے باہر نکلا۔ لڑکی جلدی سے بولی
جلدی کرو! دیو باہر نکل آیا ہے، وہ کسی بھی وقت واپس آ سکتا ہے۔ تم یہ مٹی لے لو — یہ وہی مٹی ہے جو دس سال پرانے خرگوش کے بل سے لی گئی ہے، اور یہی تمہارے والد کی زندگی بچا سکتی ہے!
شہزادہ گھبراہٹ میں مٹی کو سنبھالتے ہوئے بولا
بہت بہت شکریہ شہزادی! تم نے میری مدد کی، اب بتاؤ میں تمہارے لیے کیا کر سکتا ہوں؟
لڑکی نرمی سے مسکرا کر کہنے لگی
ابھی کے لیے بس تم یہاں سے خیریت سے نکل جاؤ۔ جب تمہارے والد ٹھیک ہو جائیں، تب دنیا گھومنا، خوشیاں منانا — اور پھر کبھی نہ کبھی، تم خود ہی میری مدد کرنے کا راستہ ڈھونڈ لو گے۔
شہزادے نے وہی کیا جو اُس لڑکی نے کہا تھا۔ وہ مٹی لے کر فوراً محل واپس آیا اور حکیم صاحب کو دی۔ حکیم صاحب نے دوا تیار کی اور شہزادے کے والد کو پلائی۔
کچھ ہی دنوں میں بادشاہ کی طبیعت ٹھیک ہونے لگی، اور آخرکار وہ مکمل طور پر صحتیاب ہو گئے۔
اب شہزادے کو اپنے وعدے کی یاد آئی۔
وہ اپنے والد کے پاس گیا اور بولا
ابا جان اب جب کہ آپ بالکل ٹھیک ہو چکے ہیں، ایک وعدہ ہے جو مجھے ضرور پورا کرنا ہے۔
بادشاہ نے نرمی سے کہا
بیٹا، میں سمجھتا ہوں۔ اُس شہزادی نے میری جان بچائی ہے، اب تم بھی اُس کے لیے جو کچھ کر سکتے ہو، ضرور کرو۔
شہزادہ بولا
میں چاہتا ہوں کہ دنیا کی سیر کروں، مگر ایک عام انسان بن کر — تا کہ میں خود کو بہتر سمجھ سکوں۔ اور دیکھ سکوں کہ میں کون سا ہنر سیکھ سکتا ہوں۔
یہ سن کر بادشاہ نے دعا دی اور کہا
میرا بیٹا، اللہ تمہیں کامیاب کرے۔ اور ہاں ایک وعدہ کرو کہ جلد واپس آؤ گے۔
شہزادہ عام سے کپڑوں میں، ایک سادہ نوجوان کے روپ میں محل سے روانہ ہوا۔ وہ کافی دنوں تک ادھر اُدھر بھٹکتا رہا۔
ایک رات، اُس کی ملاقات ایک مچھیرے سے ہوئی۔
مچھیرے نے حیرت سے پوچھا
ارے نوجوان! میں نے تمہیں پہلے یہاں کبھی نہیں دیکھا، کیا تم نئے ہو؟
شہزادے نے مسکرا کر کہا
ہاں، میں نیا ہوں اور سیکھنے کے لیے کوئی کام ڈھونڈ رہا ہوں۔
مچھیرے نے خوش ہو کر کہا
تو پھر میرے ساتھ کیوں نہیں آتے؟ تمہارے مضبوط ہاتھ میرے کام آ سکتے ہیں۔ کیا تم مچھلی پکڑنا سیکھنا چاہو گے؟
شہزادہ بولا
جی ہاں! میں ضرور سیکھنا چاہوں گا۔
پھر شہزادہ مچھیرے کے ساتھ چل پڑا اور مچھلی پکڑنے کا فن سیکھنے لگا۔
اس نے دل لگا کر اتنی محنت کی کہ مچھیرا بہت خوش ہو گیا۔
جب شہزادے کو آگے کا سفر کرنا تھا، تو مچھیرے نے اسے ایک خاص جال دیا اور کہا
یہ جال مجھے ایک ساحل سے ملا تھا۔ دنیا کی کوئی طاقتور مچھلی بھی اسے پھاڑ نہیں سکتی۔ اسے اپنے ساتھ لے جاؤ، یہ تمہارے کام آئے گا۔
شہزادہ ادب سے بولا
آپ کا بہت بہت شکریہ
اور پھر وہ آگے روانہ ہو گیا۔
جب وہ بھوکا ہوتا، تو مچھلی پکڑ لیتا۔ جب پیسوں کی ضرورت پڑتی، تو وہ مچھلی بیچ دیتا۔
اسی طرح سفر کرتا ہوا، وہ ایک نئی سلطنت میں پہنچ گیا۔
جب شہزادہ اُس نئی سلطنت میں پہنچا، تو اُس نے دیکھا کہ ایک بہت بڑا محل ہزاروں جگمگاتی ہوئی روشنیوں سے سجا ہوا تھا۔ وہ یہ سب دیکھ کر حیران رہ گیا۔
اس نے ایک راہ چلتے آدمی سے پوچھا
دوست! میں یہاں نیا ہوں، کیا تم مجھے بتا سکتے ہو کہ یہ محل ہر رات اتنا کیوں سجاتے ہیں؟ کیا آج کوئی خاص تقریب ہے؟
وہ آدمی مسکرا کر بولا
نہیں، یہ محل تو ہر رات ایسے ہی سجاتے ہیں۔ بادشاہ کو اپنی بیٹی کی خوبصورتی پر بہت ناز ہے، اور وہ روز اُس کا جشن مناتا ہے۔
پھر وہ آگے بولا
بادشاہ سب کو چیلنج دیتا ہے کہ اگر کسی کو کوئی ایسی لڑکی معلوم ہو جو اُس کی بیٹی سے زیادہ خوبصورت ہو، تو آ کر بتائے — مگر آج تک کسی نے ایسا کچھ نہیں کہا۔
مگر صرف خوبصورتی پر اتنا زور کیوں؟
آدمی نے جواب دیا
یہ تو بس ایک باپ کا فخر ہے۔ حالانکہ شہزادی نہ صرف خوبصورت ہے، بلکہ کھیل، ہنر اور سلیقے میں بھی بہت آگے ہے۔
اسی دوران ایک لڑکی قریب آئی اور نرمی سے بولی
شہزادی خود بھی یہ چاہتی ہے کہ کوئی اُسے اُس سے زیادہ چمکتی ہوئی لڑکی کے بارے میں بتائے — تاکہ بادشاہ یہ روزانہ کا جشن ختم کر دے۔
یہ سب دیکھ کر شہزادی کو شرمندگی محسوس ہوتی ہے۔
یہ سن کر شہزادہ رکا، کچھ دیر سوچا اور بولا
شاید میں شہزادی کی مدد کر سکوں۔
شہزادہ سیدھا بادشاہ کے دربار میں گیا اور ادب سے بولا
حضورِ اعلیٰ! میں ایک ایسی لڑکی کو جانتا ہوں جو سورج کی طرح چمکتی ہے۔
بادشاہ نے حیرت سے شہزادے کو دیکھا اور کہا
تم؟ ایک عام سا مچھوارا! اور تم کہتے ہو کہ تم ایسی لڑکی کو جانتے ہو جو سورج کی روشنی جیسی چمک رکھتی ہے؟
شہزادہ اعتماد سے بولا
جی ہاں، میں اسے جانتا ہوں۔
بادشاہ تھوڑا سوچا، پھر بولا
ٹھیک ہے، تمہیں ایک ہفتے کا وقت دیتا ہوں۔ اگر وہ لڑکی واقعی ہے، تو اسے میرے دربار میں لے آؤ۔
شہزادہ ادب سے بولا
بادشاہ سلامت! میں نہیں مانتا کہ کسی لڑکی کو اپنی خوبصورتی کو ثابت کرنا چاہیے۔ لیکن اگر میں اسے صرف آپ کی شہزادی کے فائدے کے لیے یہاں لاتا ہوں، تو آپ وعدہ کریں کہ آپ اس لڑکی کی عزت ایک شاہی مہمان کی طرح کریں گے۔
بادشاہ نے سر ہلا کر کہا
میں وعدہ کرتا ہوں۔ لیکن یاد رکھو، اگر تم اُس لڑکی کو نہ لا سکے، تو تمہیں سزا دی جائے گی۔
شہزادہ پورے اعتماد کے ساتھ بولا
مجھے منظور ہے، حضور۔
شہزادہ اپنی سلطنت کے جنگل میں واپس آیا۔ اسے دیو کے غار کا راستہ یاد تھا، لیکن جتنا وہ کوشش کرتا، غار کے اندر جانے کا راستہ نہیں ملتا تھا۔ چاروں طرف پانی بھرا تھا، جس سے گزرنا مشکل تھا۔
شہزادے نے فیصلہ کیا کہ وہ تیر کر جائے گا۔ ابھی وہ پانی میں جانے ہی والا تھا کہ ایک آواز آئی
شہزادے، رکو
شہزادہ حیران ہو کر مڑا تو دیکھا، ایک عورت اس کی طرف آ رہی تھی۔
وہ عورت بولی
میں شہزادی کی گڈ مادر ہوں۔ اس نے مجھے تمہارے بارے میں بتایا تھا۔
شہزادہ بولا
تم نے مجھے پہچانا کیسے؟ میں تو اب ایک مچھوارے کے روپ میں ہوں۔
عورت مسکرا کر بولی
اس نے کہا تھا تمہاری آنکھوں میں مسکراہٹ ہے۔
شہزادہ جلدی سے بولا
وہ کہاں ہے؟
عورت افسردہ ہو کر بولی
جب تم وہاں سے نکلے، دیو بہت ناراض ہوا۔ اس نے شہزادی کو اسی بکسے میں قید کر دیا، جس میں تم تھے۔ اب جب وہ خرگوش بنتی ہے تو غار سے باہر نہیں نکل سکتی، کیونکہ دیو نے غار کے آس پاس پانی بھر دیا ہے۔ اور اس پانی میں ایک بہت بڑی خطرناک مچھلی ہے۔
شہزادہ بولا
فکر نہ کرو، میرے پاس ایک خاص جال ہے، جو کوئی بھی مچھلی نہیں توڑ سکتی۔ مجھے اچھا تیرنا بھی آتا ہے۔ تم بس مجھے بتاؤ غار کے اندر کیسے جانا ہے۔
عورت بولی
ایک پرانا بل ہے، جو شہزادی نے خود اپنے لیے بنایا تھا۔ اس سے ہم اندر جا سکتے ہیں، مگر واپس نہیں آ سکتے۔
شہزادہ بولا
تم بکسے میں لیٹ جانا، وہ لکڑی کا ہے، اس لیے پانی پر تیر جائے گا۔ میں باہر سے تمہیں کھینچ لوں گا۔
پھر وہ عورت جادو سے ایک خرگوش بنی اور بل کے ذریعے غار میں گئی۔ اس نے شہزادی کو بکسے میں بٹھایا، اور دونوں تیار ہو گئیں۔
شہزادے نے جال پانی میں پھینکا خطرناک مچھلی جال میں پھنس گئی۔
شہزادہ تیر کر غار تک گیا، اور بکسے کو کھینچ کر پانی سے باہر لے آیا۔
جنگل میں آتے ہی شہزادی بولی
اوہ شہزادے! تم نے مجھے بچا لیا۔ بہت بہت شکریہ
شہزادہ بولا
شہزادی، میں نے تمہاری مدد کی ہے۔۔۔ اب ایک چھوٹا سا احسان میں بھی مانگنا چاہتا ہوں۔
ہاں، ضرور۔ بتاؤ، کیا چاہیے؟
شہزادہ نے شہزادی اور اُس کی گڈ مادر کو ساری بات بتائی۔
اس نے بتایا کہ ایک بادشاہ روز اپنی بیٹی کی خوبصورتی کا جشن مناتا ہے، اور چاہتا ہے کہ کوئی لڑکی ایسی آئے جو اس کی بیٹی سے بھی زیادہ چمکتی ہو۔
شہزادہ بولا
میں تم سے کبھی نہ کہتا کہ میرے ساتھ چلو، لیکن میں نے سنا ہے کہ وہ شہزادی خود پریشان ہے۔ وہ چاہتی ہے کہ کوئی ایسی لڑکی آئے جو اس سے زیادہ خوبصورت ہو، تاکہ اس کا باپ یہ جشن منانا بند کر دے۔
شہزادی نرمی سے بولی
میں سمجھ سکتی ہوں۔۔۔ اور ہاں میں تمہارے ساتھ چلنے کو تیار ہوں۔ ویسے بھی جب رات ہوتی ہے تو میں اپنے اصلی روپ میں آ جاتی ہوں۔
شہزادہ پوچھتا ہے
کیا دیو کا جادو ہمیشہ کے لیے ختم کیا جا سکتا ہے؟
شہزادی جواب دیتی ہے۔
ہاں، اگر میں سونے کے کہرے سے باہر آ جاؤں تو جادو ختم ہو جائے گا۔
پھر تینوں — شہزادہ، شہزادی اور گڈ مادر — سفر پر نکلے اور بادشاہ کی سلطنت میں پہنچ گئے۔
محل پہنچ کر شہزادی نے ایک انوکھی خواہش ظاہر کی۔
شہزادہ ایک لکڑی کا بکسہ لایا، اور شہزادی سے کہا
تم ایک بار پھر خرگوش بن کر اس بکسے میں لیٹ جاؤ۔
شہزادی نے فوراً اپنا جادو چلایا وہ خرگوش بنی اور بکسے میں لیٹ گئی۔
شہزادہ وہ بکسہ اٹھا کر محل کے اندر لے گیا — اب ایک بڑا راز بادشاہ کے سامنے کھلنے والا تھا۔
شہزادے کو دیکھ کر بادشاہ نے پوچھا
وہ لڑکی کہاں ہے جس کے بارے میں تم نے کہا تھا کہ وہ میری بیٹی سے زیادہ خوبصورت ہے؟
شہزادے نے ادب سے لکڑی کا بکسہ آگے رکھتے ہوئے کہا
بادشاہ سلامت وہ لڑکی اس بکسے میں ہے۔
یہ سن کر دربار میں ایک نوجوان زور زور سے ہنسنے لگا اور بولا
کیا یہ مذاق ہے؟ ایک چمکتی ہوئی خوبصورت لڑکی کسی بکسے میں چھپی ہوئی ہے؟
سب لوگ اس کی طرف حیرت سے دیکھنے لگے۔
مگر بادشاہ نے سنجیدگی سے کہا
مجھے یہ بات مذاق نہیں لگتی۔
شہزادے نے کہا
بس مجھے تھوڑا سا وقت دیں حضور۔ اگر آپ اجازت دیں تو میں آپ سے آپ کے خزانے سے تھوڑا سا سونے کا باریک پاؤڈر مانگتا ہوں۔
بادشاہ نے کہا
اچھا اسے سونے کی گرد (گولڈ ڈسٹ) دی جائے۔
شہزادے نے کہا
اس گرد کو ایک پائپ میں ڈالنا ہوگا تاکہ جب ہم اس میں پھونک ماریں، تو وہ فضا میں اڑ کر سونے کے کہرے جیسا منظر بنا دے۔
پھر 100 سپاہی ایک لائن میں کھڑے ہوئے اور سب نے مل کر پائپوں سے سونے کی گرد کو فضا میں پھونک مار کر اڑایا۔
سارا دربار سونے کے روشنی سے بھر گیا — ایسا لگ رہا تھا جیسے آسمان زمین پر اتر آیا ہو۔
تب ہی گڈ مادر نے بکسے کا ڈھکن کھولا۔
شہزادی باہر نکلی — جیسے ہی وہ سونے کے کوہرے سے نکلی، اُس کا جادو ٹوٹ گیا۔
پوری دربار پر خاموشی چھا گئی۔
سب لوگ شہزادی کی حقیقی اور بے مثال خوبصورتی کو حیرت سے دیکھ رہے تھے۔
بادشاہ احترام سے کھڑا ہو گیا اور بولا
محترمہ، آپ واقعی دنیا کی سب سے چمکدار اور خوبصورت خاتون ہیں۔
پھر بادشاہ کی بیٹی نے نرمی سے کہا
دیکھا ابا جان؟ اب براہِ کرم میری خوبصورتی کا ذکر سب کے سامنے بار بار نہ کریں۔
مجھے روز شرمندگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
میں صرف خوبصورت نہیں ہوں — میں بہت کچھ اور بھی ہوں۔
بادشاہ نے شرمندہ ہو کر کہا
مجھے معاف کر دو میری پیاری بیٹی۔
پھر بادشاہ نے شہزادے کی طرف دیکھ کر کہا
مچھوارے! یہ سب کیسے ہوا؟
شہزادے نے بادشاہ کو ساری سچائی بتا دی
کہ وہ دراصل ایک شہزادہ ہے، اور کس طرح اس نے شہزادی کو بچایا
اور کیسے وہ دونوں ایک دوسرے سے ملے، دیو سے لڑے، اور ایک دوسرے کی مدد کی۔
یہ سن کر بادشاہ نے فورا انتظام کیا کہ وہ شہزادی اور شہزادہ اپنی سلطنت واپس جا سکیں۔
جب شہزادہ اپنے محل واپس پہنچا تو اس نے اپنے والد کو گلے لگایا
اور پھر ایک خوبصورت دن
شہزادے اور چمکدار شہزادی کی شادی ہو گئی۔
دیو نے پھر کبھی انہیں تنگ نہیں کیا
اور وہ دونوں اتنے سمجھدار ہو چکے تھے کہ دوبارہ کبھی اُس غار کے قریب بھی نہ گئے۔
آخر میں بادشاہ نے اپنی بیٹی کو گلے لگایا اور ایک بڑا سبق سیکھا
حقیقی خوبصورتی صرف چہرے کی نہیں ہوتی
اصل خوبصورتی دل، عقل اور ہنر میں ہوتی ہے۔
اور اس کے بعد سب ہنسی خوشی رہنے لگے۔
یہ کہانی صرف ایک شہزادے اور چمکتی ہوئی شہزادی کی نہیں، بلکہ ہر اُس انسان کی ہے جو ظاہری خوبصورتی کے پیچھے اصل خوبیوں کو بھول جاتا ہے۔
ہم سب کی زندگی میں کوئی نہ کوئی ایسا لمحہ ضرور آتا ہے جب ہمیں فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ ہم صرف باہر کی چمک کو دیکھیں یا دل کی سچائی اور کردار کو۔
اس کہانی میں ہمیں سکھایا گیا ہے کہ
خوبصورتی صرف چہرے کی نہیں، بلکہ نیت، دل، اور ہمت کی بھی ہوتی ہے۔
جو انسان دوسروں کی مدد کرتا ہے، قربانی دیتا ہے، اور سچائی کا ساتھ دیتا ہے — وہی اصل شہزادہ ہوتا ہے۔
غرور اور خودپسندی سے کچھ حاصل نہیں ہوتا، لیکن عاجزی اور خلوص انسان کو بادشاہ بنا دیتا ہے۔
کبھی کسی کو صرف ظاہری شکل و صورت سے نہ پرکھیں — ہر انسان کے اندر ایک خوبصورتی ہوتی ہے، بس اسے دیکھنے والی آنکھ چاہیے۔
آخر میں بادشاہ نے اپنی غلطی مانی، اور شہزادی نے سب کو یاد دلایا کہ
میں صرف خوبصورت نہیں ہوں، میں بہت کچھ اور بھی ہوں۔
یہ کہانی اصل میں اُس چمکتی شہزادی کے گرد گھومتی ہے جو دیو کے جادو میں قید تھی۔ وہ خوبصورت ہی نہیں بلکہ بہادر، صابر اور اندر سے روشن دل کی مالک تھی۔
شہزادہ کہانی کا ہیرو ہے، جو ظاہری شکل سے نہیں، دل سے پہچانتا ہے۔ اس نے شہزادی کو بچانے کے لیے ہر مشکل راستہ اختیار کیا۔
دیو کہانی کا منفی کردار ہے، جو خوبصورتی کو قید کر کے
اپنی طاقت دکھانا چاہتا تھا۔
بادشاہ اور اُس کی بیٹی کہانی میں ایک آئینہ ہیں — وہ لوگ جو صرف خوبصورتی کو سب کچھ سمجھتے ہیں، مگر آخر میں مان لیتے ہیں کہ انسان اپنی سوچ، اخلاق اور سچائی سے پہچانا جاتا ہے۔
تو اگر سچ کہا جائے تو یہ کہانی ہر اُس شخص کے لیے ہے جو صرف چہرہ دیکھ کر فیصلہ کرتا ہے۔
یہ کہانی سکھاتی ہے کہ اصل خوبصورتی دل کی روشنی ہوتی ہے۔ جو ہر جادو، ہر دیو، اور ہر غلط فہمی کو شکست دے سکتی ہے۔
.png)

.png)