Motivational Story in Urdu – How a Wooden Rickshaw Changed a Man’s Life | Motivational Stories

 

Motivational Story in Urdu
Motivational Story in Urdu 

This motivational story in Urdu is about a man who lost hope in life but found strength in his hidden talent. With no job and growing responsibilities, he remembered his old skill of woodworking. On his daughter’s advice, he built a wooden rickshaw using damaged wood. This simple act changed their lives forever. 

Motivational story in Urdu like this teaches us that no talent is ever useless — it just needs the right time and effort. If you love inspirational tales, visit World Ki Best Stories for more. You’ll find motivational story in Urdu, moral lessons, and inspiring fairy tales — only on World Ki Best Stories.

موٹیویشنل کہانی: ایک لکڑی کے رکشے نے کیسے ایک شخص کی زندگی بدل دی


جب زندگی میں ہر طرف سے مایوسی ملی، تب اس نے ہار نہیں مانی بلکہ اپنے اندر چھپا


 ہوا ہنر پہچانا۔ اسی ہنر نے نہ صرف اس کا سہارا دیا بلکہ اس کی بیٹی کا مستقبل بھی 


 سنوار دیا۔ یہ کہانی اُن سب لوگوں کے لیے ہے جو اپنے اندر کی صلاحیتوں کو پہچان کر


 آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔ 

مادھف ایک سیدھا سادہ محنتی مگر غریب آدمی تھا۔ جو رانی پور نام کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں اپنی بیوی اور بیٹی کے ساتھ رہتا تھا۔ یہ گاؤں گھنے جنگلوں کے بیچوں بیچ واقع تھا اور ان جنگلوں کا نام وےبھاگ تھا۔ مادھف کے پاس کوئی نوکری نہ تھی جس کی وجہ سے گھر کا گزارا مشکل سے چلتا تھا۔ ایک دن اس کی بیوی نے پریشان ہو کر کہا، ایسا کب تک چلے گا جی؟ ہماری بیٹی اب بڑی ہو گئی ہے، کچھ تو سوچیں۔


مادھف نے گہری سانس لیتے ہوئے کہا، تمہیں لگتا ہے مجھے گھر پر فارغ بیٹھنا اچھا لگتا ہے؟ میں بھی پوری کوشش کر رہا ہوں، لیکن نوکری مل ہی نہیں رہی۔


یہ کہہ کر وہ اگلی صبح کام کی تلاش میں گاؤں سے نکل پڑا۔ سارا دن دربدر پھرتا رہا، لیکن کہیں بھی کام نہ ملا۔ شام کو تھکا ہارا اور دل شکستہ گھر لوٹا۔


اس کی بیٹی نے اس کا اُداس چہرہ دیکھ کر پوچھا، ابو آپ اتنے پریشان کیوں لگ رہے ہیں؟

مادھف نے ہنسی چھپاتے ہوئے کہا، کچھ خاص نہیں بیٹا بس تھوڑا تھک گیا ہوں۔


بیٹی نے مسکرا کر کہا، مجھے پتا ہے آپ کو نوکری نہیں ملی، لیکن فکر نہ کریں ابو، جلد ہی سب بہتر ہو جائے گا۔


مادھف مسکرا کر بولا، دیکھو تو سہی میری بیٹی کتنی سمجھدار ہو گئی ہے۔


بیٹی نے پیار سے کہا، ابو آپ جنگل وےبھاگ میں نوکری کی کوشش کیوں نہیں کرتے؟


مادھف نے تھوڑا سوچتے ہوئے کہا، بیٹا وہاں تو پڑھے لکھے لوگ کام کرتے ہیں۔ اور میں نے تو زیادہ پڑھائی بھی نہیں کی مجھے کون رکھے گا؟


بیٹی نے فوراً جواب دیا، لیکن ابو آپ کو لکڑی کا کام بہت اچھے سے آتا ہے شاید انہیں کسی ایسے ہی آدمی کی ضرورت ہو۔


یہ سن کر مادھف کو امید کی کرن دکھائی دی۔ وہ بولا، ٹھیک ہے بیٹا میں آج ہی وہاں جا کر لوگوں سے ملتا ہوں۔


مادھف سیدھا جنگل کے پولیس چوکی پر گیا اور ایک افسر سے بولا، جناب مجھے کام کی سخت ضرورت ہے، کیا یہاں کوئی نوکری مل سکتی ہے؟


پولیس افسر نے پوچھا، تمہیں کیا کام آتا ہے؟


مادھف نے جواب دیا، میں بڑھئی ہوں، لکڑی کا ہر کام جانتا ہوں۔


پولیس افسر مسکرایا اور بولا، تو تم ہی وہ آدمی ہو جس کی ہمیں تلاش تھی۔ تم آج سے ہی کام شروع کر دو۔


یہ سن کر مادھف کی خوشی کی انتہا نہ رہی، وہ شکر گزار دل سے مسکراتا ہے۔ 



مادھف نے کام شروع کر دیا۔ وہ جنگل سے لائی گئی لکڑیوں میں سے مضبوط لکڑیاں الگ کرتا اور جو لکڑیاں دیمک سے خراب ہوتی، انہیں ایک طرف رکھ دیتا۔


ایک دن مادھف نے اپنے بوس سے پوچھا، صاحب! یہ خراب لکڑیاں جو دیمک سے بھری ہوئی ہیں، ان کا کیا کروں؟


بوس نے جواب دیا، یہ تو کسی کام کی نہیں پھینک دو انہیں۔


مادھف نے ان لکڑیوں کو پھینک دیا۔


شام کو جب وہ گھر آیا تو اس کی بیٹی نے کہا، آج آپ بہت خوش لگ رہے ہیں ابو! کیا بات ہے؟


مادھف نے مسکرا کر جواب دیا، بیٹا مجھے ورویبھگ میں نوکری مل گئی ہے۔


یہ سن کر بیٹی خوشی سے بولی، یہ تو بہت اچھی خبر ہے۔ اب میں کوچنگ کلاسز جا کر اپنے پیپرز کی تیاری کر سکتی ہوں۔


مادھف نے کہا، ہاں ہاں، ضرور جاؤ۔


اس نوکری کی وجہ سے اب مادھف کے گھر کی حالت بہتر ہونے لگی تھی۔ اس کی بیٹی رادیکھا بھی روز کوچنگ جا کر پڑھائی کرتی۔


ایک دن جب مادھف لکڑیوں کو چھانٹ رہا تھا، تب اسے ایک خیال آیا۔


اس نے سوچا، کیوں نہ ان خراب لکڑیوں کو گھر لے جاؤں، شاید کبھی کام آ جائیں۔


پھر وہ شام کو جاتے ہوئے دیمک لگی لکڑیاں گھر لے گیا۔


اگلے دن وہ پھر صبح سویرے کام پر گیا اور شامکو واپسی پر پھر کچھ لکڑیاں گھر لے آیا۔


اگلے دن جب مادھف لکڑیاں گھر لے جا رہا تھا، تو ایک لیڈی آفسر نے اسے دیکھ لیا۔


وہ غصے سے بولی، تو اب تم چوری بھی کرنے لگے ہو؟


مادھف گھبرا گیا۔ وہ جلدی سے بولا، نہیں میڈم، میں چوری نہیں کر رہا۔ یہ لکڑیاں تو خراب ہیں، اس لیے انہیں گھر لے جا رہا ہوں۔


لیڈی آفسر نے تیز لہجے میں کہا، اگر یہ لکڑیاں خراب ہیں تو کیا ان کا اچار ڈالو گے؟ جھوٹ مت بولو! تم جیسے لوگوں کو نوکری نہیں دینی چاہیے تھی۔


پھر وہ بولی، کل سے تم کام پر مت آنا۔


مادھف بہت مایوس ہوا۔ وہ چپ چاپ گھر واپس آیا۔


نوکری چلی جانے سے وہ بہت پریشان ہو گیا۔


اسی وقت اس کی نظر گھر میں پڑی ہوئی لکڑیوں پر گئی۔


اس نے سوچا، کیوں نہ ان لکڑیوں سے ایک رکشہ بنا لوں؟


پھر وہ دیمک لگی لکڑیوں کو صاف کرنے لگا۔


اس نے دن رات محنت کی اور آخرکار انہی لکڑیوں سے ایک رکشہ تیار کر لیا۔


اب مادھف نے رکشہ چلانا شروع کر دیا۔


مادھف اب روزانہ رکشہ چلاتا تھا۔


ایک دن ایک آدمی آیا اور بولا، جناب، کیا آپ مجھے شہر چھوڑ دو گے؟


مادھف مسکرایا اور بولا، ہاں ہاں، بیٹھ جاؤ۔


پھر وہ رکشہ ہاتھ سے کھینچ کر لے جانے لگا۔


چونکہ رکشہ لکڑیوں کا تھا اس لیے زیادہ تیز نہیں چلتا تھا۔


سواریاں اپنی منزل پر پہنچنے میں دیر محسوس کرتی تھیں۔


اسی وجہ سے بہت سے لوگ مادھف کے رکشے میں بیٹھنے سے انکار کر دیتے تھے۔


پھر ایک دن ایک عورت آئی اور بولی، بھائی صاحب، شہر جانے میں کتنا وقت لگے گا؟


مادھف بولا، تقریباً چار یا پانچ گھنٹے لگ سکتے ہیں۔


یہ سن کر عورت بولی، نہیں بھائی صاحب، مجھے جلدی پہنچنا ہے، میں کسی اور رکشے سے چلی جاؤں گی۔


مادھف نے رکشہ تو بنا لیا تھا، لیکن اسے ہاتھ سے کھینچنا بہت مشکل تھا۔


ایک دن رادیکھا اپنے ابو سے بولی

ابو میرے امتحان آنے والے ہیں۔ مجھے شہر جانے کے لیے کچھ پیسوں کی ضرورت ہے۔


مادھف نے افسوس سے کہا

بیٹا، میرے پاس اس وقت پیسے نہیں ہیں۔ لیکن میں تمہیں اپنے رکشے میں ایگزام سینٹر چھوڑ آؤں گا۔


رادیکھا بولی

ابو، رکشے میں بہت دیر لگ جائے گی میں وقت پر نہیں پہنچ پاؤں گی۔


مادھف نے سوچا

ٹھیک ہے بیٹا، میں کچھ نہ کچھ انتظام ضرور کروں گا۔


پھر وہ سارا دن سوچتا رہا کہ کیسے رادیکھا کو جلدی شہر پہنچایا جائے۔


اسی دوران جنگل میں اس کی نظر ایک پرانی ٹوٹی پھوٹی گاڑی پر پڑی جو درخت کے نیچے کھڑی تھی۔


مادھف اس گاڑی کے پاس گیا اور بولا

یہ تو کافی پرانی ہوچکی ہے۔ لیکن اس کا انجن شاید میرے کام آ جائے۔


اس نے گاڑی کا انجن نکالا اور اپنے لکڑی کے رکشے میں لگا دیا۔


پھر خوش ہو کر خود سے کہا

اب مجھے رکشہ ہاتھ سے کھینچنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ بس اب اس کا تھوڑا موڈل بھی بدلنا ہوگا، پھر مزہ آئے گا۔


مادھف نے بچی ہوئی لکڑیوں سے اپنے رکشے کا ڈیزائن بدل دیا۔

اس نے رکشے پر ایک چھت بھی لگا دی اور اسے ایک خوبصورت رکشے میں بدل دیا۔


اگلے دن رادیکھا اپنے ابو کے نئے رکشے میں بیٹھتی ہے۔

مادھف خوش ہو کر رکشہ اسٹارٹ کرتا ہے اور رادیکھا کو اُس کے ایگزام سینٹر چھوڑ آتا ہے۔


اب چونکہ رکشے میں انجن لگ چکا تھا۔

رکشہ بہت تیز چلنے لگا، جس کی وجہ سے زیادہ لوگ مادھف کے رکشے میں سفر کرنا پسند کرنے لگے۔


ایک دن مادھف اپنے رکشے کے پاس کھڑا تھا کہ ایک آدمی آ کر پوچھتا ہے۔

بھائی صاحب، شہر پہنچنے میں کتنا وقت لگے گا؟


مادھف مسکرا کر کہتا ہے۔

بیٹھ جائیے، بس ایک گھنٹے میں پہنچا دوں گا۔


اب لوگ دوسرے رکشے چھوڑ کر صرف مادھف کے رکشے میں ہی بیٹھنے لگے۔

اس کی محنت رنگ لانے لگی تھی۔


یہ سب دیکھ کر ایک دوسرا رکشہ والا مادھف سے جلنے لگا۔

وہ پولیس کے پاس گیا اور مادھف کے خلاف جھوٹی شکایت کر دی۔


وہ پولیس والے سے بولا

صاحب! مادھف نے کسی پرانی گاڑی سے انجن چوری کیا ہے اور اپنے رکشے میں لگا لیا ہے۔


پولیس والا غصے سے بولا

اوہ! اب انجن چوریاں بھی ہونے لگیں؟


مادھف حیران ہو کر بولا

نہیں صاحب، میں نے چوری نہیں کی۔

مجھے وہ انجن جنگل میں ایک خراب گاڑی میں پڑا ہوا ملا تھا۔


پولیس والا سخت لہجے میں بولا

اچھا! اب انجن جنگل میں بھی پڑے ہوئے ملنے لگے؟

چلو زیادہ باتیں مت کرو، فوراً انجن نکالو

ورنہ سیدھا جیل میں ڈال دوں گا!


پولیس والا آ کر مادھف کے رکشے سے انجن نکال لیتا ہے۔

مادھف بہت دکھی ہوتا ہے۔ مگر وہ کچھ نہیں کر پاتا۔


اسی دوران رادیکھا کے پیپرز کا رزلٹ آجاتا ہے۔

اور خوشی کی بات یہ ہوتی ہے کہ اس کی محنت رنگ لے آتی ہے۔


رادیکھا کو ایک اچھی نوکری مل جاتی ہے۔

اب وہ روز صبح اپنے کام پر جاتی اور شام کو واپس آتی۔

وقت تیزی سے گزرتا ہے۔ اور ایک مہینے بعد رادیکھا کو اپنی پہلی تنخواہ مل جاتی ہے۔


تنخواہ والے دن وہ دیر سے گھر واپس آتی ہے۔

گھر آ کر وہ خوشی سے بولتی ہے۔

ابو! آنکھیں بند کریں، میں آپ کے لیے ایک سرپرائز لائی ہوں۔


مادھف ہنستے ہوئے بولتا ہے۔

اچھا ٹھیک ہے یہ لو کر لیں آنکھیں بند۔ اب جلدی بتاؤ کیا ہے سرپرائز؟


رادیکھا آہستہ سے مادھف کے سامنے ایک انجن رکھ دیتی ہے اور کہتی ہے۔

اب آنکھیں کھول لیجیے ابو


مادھف جیسے ہی آنکھیں کھولتا ہے، تو ایک دم حیران ہو جاتا ہے۔

اس کے سامنے ایک بالکل نیا چمکتا ہوا انجن رکھا ہوتا ہے۔


رادیکھا مسکرا کر کہتی ہے۔

یہ اسپورٹس کار کا انجن ہے۔

اسے آپ کے رکشے میں لگائیں گے۔

تو آپ کا رکشہ سب گاڑیوں سے بھی زیادہ تیز چلے گا۔


مادھف بہت خوش ہوتا ہے اور فوراً اس انجن کو اپنے لکڑی والے رکشے میں لگا دیتا ہے۔


مادھف اپنے رکشے کے ساتھ ایک طرف کھڑا ہوتا ہے اور سواری کا انتظار کرتا ہے۔

تھوڑی دیر بعد ایک عورت آتی ہے اور بولتی ہے،

بھائی صاحب، مجھے شہر جانا ہے کتنا وقت لگے گا؟


مادھف مسکرا کر کہتا ہے۔

بیٹھ جائیں، آدھے گھنٹے میں پہنچا دوں گا۔


عورت حیرانی سے کہتی ہے۔

کیا؟ شہر جانے میں تو دو گھنٹے لگتے ہیں! ہاہاہا


مادھف اعتماد سے بولتا ہے۔

جی ہاں، یہ رکشہ لکڑی کا ضرور ہے۔

لیکن اس میں اسپورٹس کار کا انجن لگا ہے۔

یہ رکشہ بجلی کی طرح دوڑتا ہے۔ آپ بے فکر ہو کر بیٹھ جائیں۔


عورت اس کی بات مان کر رکشے میں بیٹھ جاتی ہے۔

اور واقعی مادھف اسے صرف آدھے گھنٹے میں شہر پہنچا دیتا ہے۔


اتنی تیزی سے پہنچنے پر وہ عورت خوش ہو کر مادھف کو دوگنا کرایہ دیتی ہے۔


اب گاؤں کے سب لوگ مادھف کے رکشے سے شہر جانا پسند کرتے ہیں۔

کیوں کہ وہ وقت پر آرام سے اور جلدی پہنچ جاتے ہیں۔


مادھف کا لکڑی والا رکشہ اب گاؤں میں "فاراری رکشہ" کے نام سے مشہور ہو جاتا ہے۔



اس کہانی میں یہ بات  خاص ہے کہ

ایک غریب شخص جو زندگی میں بار بار ناکام ہوتا ہے۔ وہ ہار نہیں مانتا — بلکہ اپنی ناکامیوں کو موقع بنا لیتا ہے۔



مادھف کے پاس نہ نوکری تھی، نہ   پیسہ، نہ تعلیم۔

پھر جب نوکری ملی تو بھی وہ نکال دیا گیا۔

لیکن اس نے ہمت نہ ہاری بلکہ جن لکڑیوں کو سب نے رد (بیکار) سمجھا انہی سے اس نے اپنا مستقبل بنا لیا۔



یہ کہانی ان لوگوں کے لیے ہے جو

بار بار ناکامی کا سامنا کرتے ہیں

کم تعلیم یا وسائل کی وجہ سے مایوس ہو چکے ہیں

سمجھتے ہیں کہ اب ان کے لیے آگے کچھ نہیں بچا



 اگر آپ محنتی ہیں تو چھوٹے سے چھوٹا موقع بھی آپ کے لیے کامیابی کا دروازہ بن سکتا ہے۔

حالات کیسے بھی ہوں ہمت نہ ہاریں — کامیابی انھی کو ملتی ہے جو سوچتے ہیں، سیکھتے ہیں، اور آگے بڑھتے ہیں۔

 بیکار لکڑیاں ہو یا زندگی کی ناکامیاں — جو انہیں پہچان لے وہی اصل کاریگر ہوتا ہے۔


اگر آپ غربت بے روزگاری یا ناکامی کا سامنا کر رہے ہیں۔

تو یہ کہانی آپ کو سکھائے گی کہ

 مایوس ہونے کے بجائے جو کچھ آپ کے پاس ہے اُسی سے فائدہ اٹھا کر اپنی زندگی بدلنا ممکن ہے۔


مادھف کی کہانی ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ انسان چاہے جتنی بھی مشکلات میں ہو، اگر وہ ہمت نہ ہارے اور اپنے اندر چھپے ہنر کو پہچان لے تو وہ ناممکن کو بھی ممکن بنا سکتا ہے۔ لکڑی سے بنے ایک عام سے رکشے نے نہ صرف مادھف کی زندگی بدلی، بلکہ اس کی بیٹی کا مستقبل بھی روشن کر دیا۔ سچ یہی ہے کہ اصل طاقت ہمارے اندر موجود ہے بس ہمیں اسے پہچاننے کی دیر ہے۔



یہ کہانی آپ کو کیسی لگی؟

کمنٹ کر کے ضرور بتائیں، اور ایسی مزید  کہانیاں پڑھنے کے لیے ہماری ویب سائٹ  World Ki Best Stories کو ضرور فالو کریں۔ اور اپنے دوستوں اور رشتے داروں کے ساتھ شئیر کرنا بالکل نہ بھولیں تاکہ انہیں بھی آپکی وجہ سے کچھ سیکھنے کو ملے۔ 

روز کچھ نیا سیکھیں، کچھ نیا سوچیں، اور نئی زندگی کا آغاز کریں۔ پھر ملینگے ایک اور کہانی کے ساتھ۔ جب تک اپنا خیال رکھیں۔

اسٹوری کوئین اسماء 


Read More Stories 




I hope you liked this motivational story in urdu. You can read more interesting Motivational story in Urdu, Short motivational story for students, True motivational stories, Motivational Story in Hindi, short motivational Story, motivational stories, Motivational story in Urdu Text, Motivational Stories in Urdu for students, Short Motivational Story in Urdu and much more interesting stories just right here: fairy tales stories and moral stories for kids. 

Also, read more interesting Motivational posts in Urdu. 

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.