This is a thoughtful moral story in Urdu about the value of words. It shows how one sentence can change someone’s day, mood, or even life. Just like we think before spending money, we should think before speaking.
At World Ki Best Stories, we post simple and meaningful Urdu moral stories, motivational stories, fairy tales stories every day. This story gives a deep message: if we cannot give our wealth to everyone, we should at least be careful with our words.
If you enjoy reading moral story in Urdu, then our website is perfect for you. Explore more motivational stories, life lessons stories, and emotional tales only on World Ki Best Stories — your home for inspiring stories content.
اخلاقی کہانی – اگر ہم اپنی دولت ہر کسی کو نہیں دے سکتے تو اپنے الفاظ بھی سوچ سمجھ کر دینے
چاہئیں – ایک روپے کا ایک لفظ
میں اب صرف وہی بات کرتا ہوں جو ضروری ہو - کیونکہ الفاظ سونے جیسے قیمتی
ہوتے ہیں۔
احسن ایک نہایت ہی نیک، تمیزدار اور باادب لڑکا تھا۔ وہ اپنی جماعت کا سب سے ذہین طالبعلم تھا۔ ہر بار امتحان میں اول آتا تھا۔ سب اس کی تعریف کرتے تھے۔ مگر احسن میں ایک خامی بھی تھی — وہ بہت زیادہ بولتا تھا۔ جب ایک بار بولنا شروع کر دیتا تو پھر اسے یہ احساس ہی نہ ہوتا کہ کب رکنا ہے۔ اس کے دوست تو کسی نہ کسی طرح برداشت کر لیتے، لیکن دوسرے لوگوں کو اس بات پر اسے چڑانے اور مذاق بنانے کا موقع مل جاتا۔
ایک دن اسکول میں ایک نئے اُستاد آئے۔ انہوں نے کلاس کے سب بچوں سے کہا، بچو! سب اپنا تعارف کرواؤ۔ جیسے ہی احسن کی باری آئی، اس سے پہلے ہی کچھ شرارتی لڑکے ہنستے ہوئے بولے ارے سر! اس کو مت بولنے دیجیے گا! اُستاد حیران ہو گئے، "کیوں بھئی؟" تو وہ لڑکے ہنس کر بولے، سر! یہ ایک بار بولنا شروع کرے تو چپ کرانا مشکل ہو جاتا ہے۔
یہ سنتے ہی پوری کلاس ہنسنے لگی اور احسن شرمندگی سے چپ کھڑا رہ گیا۔
یہ پہلا موقع تھا جب احسن کو سب کے سامنے اتنی شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا۔ اُس کا دل بہت دکھا، مگر اس نے خود سے وعدہ کیا کہ اب وہ کم بولے گا، خاموش رہنے کی کوشش کرے گا۔ لیکن یہ اُس کے لیے آسان نہ تھا، کیونکہ زیادہ بولنا تو اس کی عادت بن چکی تھی۔
آہستہ آہستہ اُس کا مذاق بننے لگا۔ اب جیسے ہی وہ بولنے کی کوشش کرتا، لڑکے ہنستے ہوئے ادھر ادھر ہو جاتے۔ یہاں تک کہ اُس کے قریبی دوست بھی اُس کا ساتھ چھوڑنے لگے۔ وہ اکیلا رہ گیا تھا۔
ایک دن عصر کی نماز کے بعد احسن بہت دل گرفتہ ہو کر مسجد میں بیٹھ گیا۔ اُس نے آنکھوں میں آنسو لیے اللہ سے دعا مانگی: یا اللہ! مجھے میری اس کمزوری سے نجات دے، مجھے سمجھ دے، ہمت دے۔
نماز کے بعد وہ مسجد کے ساتھ بنے باغیچے میں گیا اور ایک بینچ پر خاموشی سے بیٹھ گیا۔ اُسی وقت ایک بزرگ جو اکثر مسجد میں نماز پڑھتے تھے، آہستگی سے اُس کے قریب آ کر بیٹھ گئے۔ انہوں نے نرمی سے احسن کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور کہا، بیٹا! ہمت نہ ہارو، اللہ ہر اس انسان کی سنتا ہے جو دل سے دعا کرتا ہے۔
احسن حیران ہو گیا کہ انہیں اُس کے دل کا حال کیسے معلوم ہوا؟ بزرگ مسکرا کر بولے، بیٹا! میں نے تمہیں روتے اور دعا مانگتے دیکھا تھا۔ اللہ اپنے بندوں کو کبھی اکیلا نہیں چھوڑتا۔ انشاء اللہ سب بہتر ہو جائے گا۔
بزرگ نے نرمی سے کہا، جیسے میں کہتا ہوں، ویسے ہی کرو۔ یہ لو دو ہزار روپے۔۔۔ اور آنکھیں بند کرو۔
احسن حیران رہ گیا۔ وہ دل ہی دل میں سوچنے لگا کہ یہ بزرگ جو دیکھنے میں خود بڑے سادہ اور غریب لگتے ہیں، وہ اسے اتنے پیسے کیوں دے رہے ہیں؟ لیکن اُس نے بنا کچھ کہے، آنکھیں بند کر لیں۔
جیسے ہی آنکھیں بند ہوئیں، وہ خود کو ایک عجیب سی جگہ پر پایا۔ ایک الگ ہی دنیا میں جہاں لوگ لمبی قطار میں کھڑے تھے۔ سب کے چہروں پر سنجیدگی تھی، جیسے کوئی قیمتی چیز خریدنی ہو۔
احسن نے پاس کھڑے ایک آدمی سے پوچھا یہاں کیا مل رہا ہے؟
آدمی نے مسکرا کر جواب دیا، بیٹا! یہاں الفاظ بکتے ہیں۔ ایک روپیہ ایک لفظ کے برابر ہے۔
احسن نے حیرت سے پوچھا، الفاظ؟
بس اتنا کہنا تھا کہ اچانک احسن کی زبان جیسے بند ہو گئی۔ وہ کچھ بول ہی نہیں پا رہا تھا۔ جیسے اُس کی آواز کھو گئی ہو۔ وہ خوفزدہ ہو گیا۔ دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔
گھبراہٹ میں اُس نے جیب سے دو ہزار روپے نکالے اور فوراً قطار میں جا کھڑا ہوا۔ جیسے تیسے اُس نے دو ہزار روپے کے دو ہزار الفاظ خرید لیے۔
اگلے ہی لمحے اُس کی آنکھیں کھل گئیں اور وہ دوبارہ مسجد کے باغیچے میں بینچ پر بزرگ کے پاس موجود تھا۔
بزرگ نے گہری نظر سے اُسے دیکھا اور کہا
بیٹا! اب تمہارے پاس صرف ایک دن کے لیے دو ہزار الفاظ ہیں۔ ایک ایک لفظ سوچ کر استعمال کرنا۔ اگر تم نے ان الفاظ کو ضائع کیا۔۔۔ تو تم ہمیشہ کے لیے خاموش ہو جاؤ گے۔
احسن بہت پریشان تھا، لیکن کر بھی کیا سکتا تھا؟ اُس نے بہت کوشش کی کہ وہ کم بولے، مگر اُس کے لیے یہ بہت مشکل کام تھا۔ افسوس کہ وہ اپنے دو ہزار الفاظ ایک ہی رات میں ختم کر بیٹھا۔
اگلے دن جب وہ اسکول گیا، تو حسبِ معمول کچھ لڑکوں نے اُس کا مذاق اُڑانا شروع کر دیا۔ مگر اس بار وہ بالکل خاموش رہا، کوئی جواب نہیں دے سکا۔ اُسے چپ دیکھ کر، مذاق اُڑانے والوں کا خود ہی مزہ کرکرا ہو گیا۔ اب وہ لوگ بھی چپ ہو گئے۔
لیکن دوپہر تک احسن کا دل جیسے پھٹنے لگا۔ وہ اندر ہی اندر تڑپ رہا تھا کہ کچھ بولے مگر زبان خاموش تھی۔ وقت جیسے رُک گیا ہو۔
آخرکار عصر کا وقت آیا۔ احسن نے وضو کیا، نماز پڑھی اور دل میں ایک ہی دعا کی کہ بزرگ بابا پھر سے آجائیں۔ وہ بے قراری سے مسجد کے ساتھ والے باغ میں اُس بینچ پر جا کر بیٹھ گیا اور اُن کا انتظار کرنے لگا۔
کچھ ہی دیر بعد بزرگ بابا آ گئے۔ وہ نرمی سے مسکرائے اور بولے
کیسا رہا آج کا دن میرے بچے؟ کہیں زیادہ پریشان تو نہیں ہو گئے؟
احسن کی آواز واپس آ گئی تھی۔ وہ تھوڑا سا روہانسا ہو کر بولا
بابا! یہ بہت مشکل ہے، مجھ سے برداشت نہیں ہوتا۔ خاموش رہنا میرے لیے بہت تکلیف دہ ہے۔
بابا نے محبت سے اُس کی ہتھیلی میں ایک ہزار کا نوٹ رکھا اور کہا
لو یہ پکڑو۔۔۔ اور آنکھیں بند کرو۔
احسن نے آنکھیں بند کیں اور وہ دوبارہ اُسی عجیب سی دنیا میں پہنچ گیا۔
اب کی بار وہاں ایک ٹھیلے والا کھڑا تھا۔ وہ زور زور سے آواز لگا رہا تھا
الفاظ لے لو۔۔ الفاظ لے لو۔۔ الفاظ والا آ گیا
اُس کی آواز سن کر لوگ اُس کے اردگرد جمع ہونے لگے۔ احسن نے جلدی سے موقع پایا اور ایک ہزار روپے کے بدلے ایک ہزار الفاظ خرید لیے۔
احسن چلتے چلتے ایک تنگ سی گلی میں پہنچ گیا۔ وہاں اُس نے دیکھا کہ دو آدمی آپس میں کسی بات پر لڑ رہے تھے۔ بات اتنی بڑھ گئی کہ دونوں ایک دوسرے پر زور زور سے چیخنے لگے۔ لیکن ابھی لڑائی زور پکڑ ہی رہی تھی کہ ان میں سے ایک آدمی کی زبان اچانک بند ہو گئی۔ اس کے لفظ ختم ہو چکے تھے۔ جیسے ہی وہ خاموش ہوا دوسرا شخص بھی حیران رہ گیا، اُس کا غصہ بھی تھم گیا اور لڑائی وہیں ختم ہو گئی۔
یہ منظر دیکھ کر احسن چونک گیا۔ اور اگلے ہی لمحے، وہ واپس باغ میں بینچ پر بزرگ بابا کے پاس موجود تھا۔
بابا نے نرمی سے کہا
بیٹا اب تمہارے پاس صرف ایک ہزار الفاظ باقی رہ گئے ہیں۔ اب تمہیں بہت سنبھل کر بولنا ہوگا۔
احسن نے ادب سے سر ہلایا اور بولا
جی بابا ان شاء اللہ! میں آپ کی ہر بات پر عمل کروں گا۔
اس بار احسن نے واقعی بہت محتاط رہنا سیکھ لیا تھا۔ وہ صرف وہاں بولتا جہاں واقعی بات کرنا ضروری ہو۔ اگلے دن جب وہ بابا کے پاس واپس گیا تو خوشی سے بولا
بابا! آج میرے پاس دو سو الفاظ بچے ہیں، اور دل سے لگتا ہے کہ میں بدل رہا ہوں۔ اب میں وہی بولتا ہوں جو ضروری ہو۔
بابا بہت خوش ہوئے۔ محبت سے اُس کے سر پر ہاتھ پھیرا اور بولے
شاباش میرے بچے! اب تمہاری منزل قریب ہے۔ یہ لو پندرہ سو روپے اور ایک بار پھر آنکھیں بند کرو۔
اس بار جب احسن نے آنکھیں بند کیں تو وہ طلسماتی دنیا اور بھی حسین نظر آئی۔ چاروں طرف سر سبز وادیاں تھیں۔ نیلے شفاف پانی سے بھرے جھرنے بہہ رہے تھے۔ رنگ برنگے پرندے خوشی سے چہچہا رہے تھے اور ایک خوبصورت تالاب کے کنارے پھولوں کی خوشبو پھیل رہی تھی۔ احسن یہ سب دیکھ کر حیران رہ گیا اُس کی آنکھوں میں خوشی کی چمک تھی۔ ایسی خوبصورتی اُس نے پہلے کبھی نہ دیکھی تھی۔
احسن نے ایک چھوٹی سی دکان سے پندرہ سو روپے کے پندرہ سو الفاظ خرید لیے۔ اُس کے دل میں ایک عجیب سا سکون تھا۔ اُس نے سوچا کاش ہر انسان اپنی زبان سے نکلنے والے الفاظ کی اتنی ہی قدر کرے تو نہ جانے کتنے جھگڑوں، تکلیفوں اور گناہوں سے بچ سکتا ہے۔ یہ سوچتے ہوئے اُسے نیند آ گئی۔ جب آنکھ کھلی تو وہ ایک بار پھر باغ میں موجود تھا۔
بابا مسکرا کر بولے
بیٹا! اب تم میرے پاس صرف تب آنا جب یہ پندرہ سو الفاظ ختم ہو جائیں۔ یہ تم پر منحصر ہے کہ تم انہیں ایک دن میں ختم کرتے ہو یا پورے ہفتے چلا لیتے ہو۔
احسن نے ان الفاظ کو بڑی سمجھداری سے استعمال کیا۔ اب وہ بغیر ضرورت کے نہیں بولتا تھا۔ وہ دل سے جان چکا تھا کہ الفاظ کی قدر کیا ہوتی ہے۔ اُس نے یہ پندرہ سو الفاظ پورے دس دن تک سنبھال کر رکھے۔
اب وہ وہی احسن تھا۔ لیکن پہلے سے بہت بہتر۔ اُس کی خاموشی اب اُس کی کمزوری نہیں، بلکہ اُس کی طاقت بن چکی تھی۔ جو لوگ کبھی اُس کا مذاق اُڑایا کرتے تھے وہ اب تھک کر چپ ہو چکے تھے۔ اُستاد بھی اُس کی سمجھداری سے خوش تھے۔ اور پہلے سے زیادہ اُس کی تعریف کرنے لگے تھے۔
دس دن بعد احسن پھر سے بابا کے پاس گیا۔ بابا نے محبت سے اُس کی طرف دیکھا اور کہا
بیٹا! اب تمہیں الفاظ خریدنے کی ضرورت نہیں۔ تم بولنے کے آداب سیکھ چکے ہو۔ میں دعا کرتا ہوں کہ تم ہمیشہ کامیاب رہو۔
یہ سن کر احسن کی آنکھیں خوشی سے بھر آئیں۔ اُس نے بابا کو گلے لگا لیا۔ اُس کی خاموشی نے اُسے وہ عزت سکون اور کامیابی دے دی تھی، جس کی اُسے ہمیشہ تلاش تھی۔
احسن نے آخرکار سیکھ لیا تھا کہ کم بولنا اور صحیح وقت پر بولنا زندگی کو کتنا خوبصورت بنا دیتا ہے۔ اس کی خاموشی نے نہ صرف اسے لوگوں کی عزت دلائی بلکہ اس کی شخصیت میں بھی نکھار آگیا۔ بزرگ نے اُسے گلے لگاتے ہوئے کہا
بیٹا! اب تمہیں الفاظ خریدنے کی ضرورت نہیں۔ تم بولنے کے آداب سیکھ چکے ہو، اور میں دُعا کرتا ہوں کہ تم ہمیشہ کامیاب رہو۔
یہ سن کر احسن کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو آ گئے۔
یہ کہانی ہمیں ایک اہم بات سکھاتی ہے۔ جو زندگی میں بہت کام آ سکتی ہے۔ اس میں خاص بات یہ ہے کہ اگر ہم یہ مان لیں کہ ہمارے بولنے کے الفاظ گنے چنے ہیں۔ تو ہم فضول اور بے وقت بولنے سے بچ سکتے ہیں۔ ہمیں صرف تب ہی بولنا چاہیے جب واقعی ضرورت ہو۔
اس کہانی سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ زیادہ بولنا اچھی بات نہیں۔ جو لوگ ہر وقت بولتے رہتے ہیں۔ لوگ ان کی بات کو اہمیت نہیں دیتے۔ لیکن جو لوگ سوچ سمجھ کر، وقت پر اور کم بولتے ہیں، ان کی عزت ہوتی ہے اور ان کی بات کو لوگ دھیان سے سنتے ہیں۔
یہ کہانی بچوں بڑوں اور ہر اُس شخص کے لیے فائدے مند ہے جو اپنی عادتوں میں بہتری لانا چاہتا ہے۔ اگر ہم سیکھ لیں کہ کب بولنا ہے اور کب خاموش رہنا ہے۔ تو ہماری زندگی میں سکون، عزت اور کامیابی آ سکتی ہے۔ اس کہانی کو پڑھنے کے بعد ہر کوئی یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ کہ کیا میں بھی اپنی زبان کا صحیح استعمال کر رہا ہوں؟
یہ کہانی ہمیں سکھاتی ہے کہ بولنا بھی ایک ہنر ہے۔ اگر ہم ہر بات سوچ سمجھ کر کریں تو ہماری باتوں کی قیمت بڑھ جاتی ہے۔ جب ہم بلاوجہ ہر وقت بولتے ہیں تو لوگ ہماری باتوں کو سنجیدگی سے نہیں لیتے۔ لیکن جب ہم کم نرم اور صحیح وقت پر بولتے ہیں تو ہماری بات اثر رکھتی ہے۔ احسن کی کہانی ہمیں یہی سکھاتی ہے کہ بولنے سے پہلے سوچنا چاہیے۔ کیونکہ ہر لفظ کی اپنی اہمیت ہوتی ہے۔ جو لوگ اپنی زبان پر قابو رکھنا سیکھ جاتے ہیں وہ زندگی میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔
اب آپ یہ سوچ رہے ہوں گے کہ ہمیں کب بولنا چاہیے اور کب خاموش رہنا چاہیے؟
تو دھیان سے سنیں: جب آپ کی بات سے کسی کا دل خوش ہو، کسی کی مدد ہو، کسی کو فائدہ ملے، یا کوئی مسئلہ حل ہو — تب بولیں۔
لیکن جب آپ کی بات کسی کو دکھ دے، لڑائی بڑھائے، دوسروں کو نیچا دکھانے کے لیے ہو، یا صرف اپنا غصہ نکالنے کے لیے ہو — تو بہتر ہے کہ خاموش رہیں۔
یاد رکھیں خاموشی بعض اوقات وہ جواب ہوتی ہے جو الفاظ بھی نہیں دے سکتے۔ یہی وقت کی سمجھداری ہے یہی اصل عقل مندی ہے۔
یہ کہانی آپ کو کیسی لگی؟
کمنٹ کر کے ضرور بتائیں، اور ایسی مزید کہانیاں پڑھنے کے لیے ہماری ویب سائٹ World Ki Best Stories کو ضرور فالو کریں۔ اور اپنے دوستوں اور رشتے داروں کے ساتھ شئیر کرنا بالکل نہ بھولیں تاکہ انہیں بھی آپکی وجہ سے کچھ سیکھنے کو ملے۔
روز کچھ نیا سیکھیں، کچھ نیا سوچیں، اور نئی زندگی کا آغاز کریں۔ پھر ملینگے ایک اور کہانی کے ساتھ۔ جب تک اپنا خیال رکھیں۔
اسٹوری کوئین اسماء
Read More Stories
I hope you liked this moral story in urdu. You can read more interesting Moral story, moral stories, moral Story in Urdu, Short moral story in urdu, Moral story in urdu for adults, Moral story in urdu for students, Very short stories with moral, and much more interesting stories just right here motivational stories and fairy tales stories for kids.
Also, read more interesting moral posts in Urdu.
.png)

.png)