Moral Story in Urdu – How a Woman Changed Her Life by Selling Samosas | Moral Stories

 

Moral Story in Urdu
Moral Story in Urdu 

This is a moral story in Urdu about a brave and smart woman who did not give up when her family was in trouble. When her husband got hurt and they had no money, she used her cooking skills to sell samosas and support her home. 

This story shows the power of hard work, patience, and never losing hope. If you enjoy reading moral stories in Urdu, visit our website World Ki Best Stories

We share new and heart-touching stories , moral stories, fairy tales stories and other stories every day to inspire and motivate you. Don’t miss this beautiful moral story in Urdu – it can change your thinking and your life.

اخلاقی کہانی – ایک عورت نے سموسے  بیچ کر اپنی زندگی کیسے بدلی



یہ کہانی ہے ریکھا کی جو ایک غریب مگر باہمت عورت ہے۔ اپنے بیمار شوہر موہن اور 


چھوٹے بیٹے مونٹی کے ساتھ وہ زندگی کی مشکلات کا ڈٹ کر مقابلہ کرتی ہے۔ بارش 


بھوک، حسد کرنے والے چندو حلوائی اور جعلی پولیس جیسی رکاوٹوں کے باوجود ریکھا


 اپنے مسالے دار سموسوں کے ذریعے نہ صرف روزی کماتی ہے بلکہ خودداری اور 


ایمانداری سے نئی زندگی بناتی ہے۔ یہ کہانی محنت، حوصلے اور عورت کی طاقت کی سچی


 تصویر ہے، جو سکھاتی ہے کہ محنت کبھی ضائع نہیں جاتی۔

موہن ایک محنتی آدمی تھا۔ جو روزانہ اپنی آلو کی گاڑی لے کر بازار جاتا تھا۔ اُس دن بھی وہ صبح سویرے نکلا امیدوں کے ساتھ کہ آج سارے آلو بک جائیں گے۔ لیکن شام تک ایک بھی آلو نہیں بکا۔ وہ تھکا ہارا اپنی گاڑی کے پاس بیٹھا تھا کہ اچانک موسم بدل گیا۔ بادل چھا گئے ایک زور دار گرج ہوئی اور پھر موسلا دھار بارش شروع ہو گئی۔ موہن پریشان ہو گیا، اے اللہ! صبح سے کچھ نہیں بکا اور اب سارے آلو بارش میں بھیگ کر خراب ہو گئے۔ اب میں کیا بیچوں گا؟

دل گرفتہ موہن بارش میں بھیگتا ہوا گھر کی طرف لوٹنے لگا۔ راستے میں اس کا پاؤں سڑک کے ایک گڑھے میں پھنس گیا اور وہ گر پڑا۔ پاؤں میں موچ آ گئی اور خون بھی بہنے لگا۔ بڑی مشکل سے وہ اپنی گاڑی کے ساتھ گھر پہنچا۔ دروازہ کھلا، تو اس کی بیوی ریکھا، آٹھ سالہ بیٹا مونٹو اور پانچ سالہ بیٹی ریا اسے دیکھ کر گھبرا گئے۔

ریکھا نے فوراً پوچھا، یہ کیا ہوا؟ آپ کو چوٹ کیسے لگی؟

موہن نے تھکے ہوئے لہجے میں کہا بس ریکھا جب قسمت ساتھ نہ دے تو سب کچھ بگڑ جاتا ہے۔ یہ بھی اسی کا حصہ ہے۔

ریکھا نے نرمی سے کہا، آپ کپڑے بدلیں میں ابھی آپ کے زخم پر پٹی باندھتی ہوں۔

موہن اب بستر پر ہی رہتا تھا۔ وہ کام پر نہیں جا سکتا تھا۔ پہلے تو جیسے تیسے گزارا ہو جاتا تھا، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ پیسے ختم ہونے لگے۔ اب تو گھر میں راشن بھی ختم ہو چکا تھا۔ اس دن گھر کے سب افراد نے صبح سے کچھ نہیں کھایا تھا۔ بچے چپ چاپ، اداس بیٹھے تھے۔

ریکھا نے اُن سے نرمی سے پوچھا، کیا ہوا بچوں؟ تمہارے چہرے اتنے اداس کیوں ہیں؟

مونٹو آہستہ سے بولا، ماں، بابا کام پر نہیں جا سکتے اور گھر میں کھانے کو بھی کچھ نہیں ہے۔ لیکن میں کیا کروں، مجھے بھوک بار بار لگتی ہے 

ریا نے جلدی سے کہا، کوئی بات نہیں ماں آپ فکر نہ کریں ہم پانی پی کر گزارا کر لیں گے۔

یہ بات سن کر ریکھا کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ اُس نے ہر جگہ جا کر کام مانگا، لیکن کہیں بھی کام نہیں ملا۔ تھکی ہاری جب وہ گھر آئی تو گھر کی حالت دیکھ کر دل بھر آیا۔

موہن نے بستر پر لیٹے لیٹے کہا، مجھے معاف کرنا بچوں، ریکھا میں اپنی چوٹ کی وجہ سے کام پر نہیں جا پا رہا۔ میری وجہ سے تم سب کو بھوکا رہنا پڑ رہا ہے۔ نہ جانے میں کب ٹھیک ہوں گا اور مجھے ڈر ہے کہ یہ جو آلو گھر میں رکھے ہیں بارش سے خراب نہ ہو جائیں۔

موہن کی بات سن کر ریکھا کو ایک خیال آیا۔ اُس نے مسکرا کر کہا، اگر ہم یہ آلو بازار میں لے جائیں تو شاید زیادہ نہیں بکھیں گے، اور اگر خراب ہو گئے تو نقصان ہو جائے گا۔ کیوں نہ ہم آلو کے سموسے بنا کر بیچیں؟ آپ جانتے ہیں نا بچوں کو میرے ہاتھ کے چٹ پٹے سموسے کتنے پسند ہیں۔

جب ریکھا نے بچوں کی باتیں سنیں، تو اُس کے دل میں ہمت آئی۔ مونٹو نے کہا، امی، آپ جانتی ہیں نا ہمارے اسکول کے باہر جو چچا سموسے بیچتے ہیں، ان کے سموسے اتنے مزیدار نہیں ہوتے۔ ایک بار رونق نے میرے لیے لیے تھے لیکن ذائقہ خراب تھا۔ آپ کے مسالے دار سموسے تو اُن سے کہیں بہتر ہیں۔

ریا نے بھی خوشی سے کہا، امی اگر آپ سموسے بنائیں گی تو ضرور سب کو پسند آئیں گے۔

ریکھا کو بچوں کی باتیں بہت پسند آئیں۔ وہ فوراً اپنا چاندی کا ہار بیچ کر ضروری سامان خریدتی ہے اور اگلے ہی دن آلو کے مزیدار کرارے سموسے اور میٹھی و کھٹی چٹنی بنا کر بازار میں بیچنے نکل پڑتی ہے۔

بازار میں گاہکوں کو جب اس کے چٹپٹے سموسے ملتے ہیں تو سب خوش ہو جاتے ہیں۔
ارے بہن، کیا مزیدار سموسے بنائے ہیں تم نے
بارش کے موسم میں ایسے گرم سموسے مل جائیں، تو کیا بات ہے۔
دو دے دو، نہیں نہیں، چار دے دو

ریکھا کے سارے سموسے پہلے ہی دن بک جاتے ہیں۔ وہ خوشی خوشی گھر آتی ہے اور کئی دنوں بعد سب کے لیے پنیر کی سبزی بناتی ہے۔ اب وہ ہر روز بازار جاتی ہے اور سموسے بیچتی ہے۔

ایک دن جب وہ بازار میں کھڑی ہوتی ہے تو موسم گرم ہوتا ہے، لیکن اچانک بادل آ جاتے ہیں۔ ریا بھی اُس دن اُس کے ساتھ ہوتی ہے۔

ماں مجھے بادلوں کی آواز سے ڈر لگ رہا ہے
بیٹا جلدی سے ترپال دے دو بارش آنے والی ہے۔

ریکھا جلدی سے ترپال باندھتی ہے، لیکن بارش اتنی زور کی ہوتی ہے کہ سب سموسے بھیگ جاتے ہیں اور خراب ہو جاتے ہیں۔ اُس دن ایک بھی سموسہ نہیں بکتا۔

مایوس ہو کر ریکھا گھر آتی ہے لیکن ہار نہیں مانتی۔ اگلے دن وہ اپنے ٹھیلے پر ایک مضبوط سفید کپڑا باندھتی ہے اور دعا کرتی ہے۔
یا اللہ، کل نقصان ہو گیا، آج رحم فرما دے۔

لیکن قسمت کو کچھ اور ہی منظور ہوتا ہے۔ اچانک زوردار آندھی آتی ہے، اور ایک بڑا درخت ریکھا کی گاڑی پر گر جاتا ہے۔ گاڑی پوری طرح ٹوٹ جاتی ہے۔

ریکھا دل ہی دل میں کہتی ہے
یا اللہ، نہ جانے ہم غریبوں کے نصیب میں کتنے دکھ لکھے ہیں۔ اب تو میرے پاس گاڑی بھی نہیں بچی۔ میں اپنے سموسے کیسے بیچوں گی؟

اگلے چند دن ریکھا گھر پر ہی رہی۔ دل میں فکر تھی کہ اب گھر کا خرچ کیسے چلے گا۔ موہن کی طبیعت بھی ٹھیک نہیں تھی اور کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا۔

پھر ایک دن ریکھا کو باہر سے آواز سنائی دی۔ کوئی شخص گلی میں آواز لگا رہا تھا، جامن لے لو، میٹھے رس دار جامن، وہ شخص سر پر ٹوکری اٹھائے بارش میں بھی اپنا کام کر رہا تھا۔

یہ منظر دیکھ کر ریکھا کے دل میں ایک نیا خیال آیا۔ اُس نے سوچا اگر یہ شخص جامن   بیچ سکتا ہے، تو میں بھی سموسے  بیچ سکتی ہوں۔

اُس نے سموسے بنائے انہیں صاف ٹوکری میں رکھا اور اوپر ایک موٹا کاغذ ڈال دیا تاکہ بارش سے خراب نہ ہوں۔

باہر موسلا دھار بارش ہونے والی تھی لیکن ریکھا نے ہمت کی۔ اُس نے ٹوکری سر پر رکھی اور بارش میں نکل پڑی۔

مونٹو نے بھی ضد کی کہ وہ ماں کے ساتھ کام پر جائے۔ ریکھا نے نرمی سے اجازت دے دی اور ماں بیٹا دونوں گلیوں میں نکل گئے۔

بارش میں بھیگتے ہوئے وہ ایک گلی سے دوسری گلی گئے۔ وہ چٹ پٹے سموسے  بیچتے اور لوگ خوش ہو کر خریدتے۔

کاغذ کی تہہ نے سموسوں کو بارش سے بچا لیا، لیکن بارش میں بھیگنے کی وجہ سے مونٹو کو چھینکیں آنے لگیں۔

ریکھا پریشان ہو گئی۔ اُس نے کہا، مونٹو تمہاری طبیعت خراب ہو رہی ہے بارش میں کام مت کیا کرو۔

اسی دوران وہ دونوں ریلوے اسٹیشن جا پہنچے۔ وہاں بہت سارے لوگ ٹرین کا انتظار کر رہے تھے۔

ریکھا نے اردگرد دیکھا اور مسکرا کر کہا، یہی  بہتر  جگہ ہے، اب سے میں پلیٹ فارم پر سموسے  بیچا کروں گی۔


اگلے دن، ریکھا نے سڑکوں پر گھومنے کے بجائے سیدھا ریلوے پلیٹ فارم کا رخ کیا۔ اس کے ہاتھ میں وہی ٹوکری تھی جس میں گرم گرم مسالہ دار سموسے رکھے تھے۔

وہ ایک کونے میں کھڑی ہوئی اور آواز لگانے لگی، گرم گرم سموسے خاص چٹنی کے ساتھ۔

کچھ ہی دیر میں لوگ اس کے گرد جمع ہونے لگے۔ مسافروں نے جیسے ہی سموسے چکھے اُنہیں مزہ آ گیا۔

بہن! آپ کے مسالے دار سموسے واقعی لاجواب ہیں۔ ایک مسافر نے کہا، اب مجھے دو اور دے دو ساتھ چٹنی بھی۔

ریکھا کے چہرے پر خوشی چھا گئی۔ اب روزانہ اُس کے سموسے ہاتھوں ہاتھ بکتے تھے۔ وہ اچھی کمائی کرنے لگی تھی۔

لیکن اب کی بار ریکھا نے صرف کمائی پر ہی زور نہیں دیا۔ وہ پیسے بچانے بھی لگی، تاکہ مشکل وقت دوبارہ نہ  آئے۔

اس کی محنت رنگ لانے لگی تھی۔ مگر پلیٹ فارم کے دوسرے ہاکروں کی فروخت کم ہونے لگی۔ خاص طور پر چندو سموسے والے کی۔

چندو کی دکان پر پہلے کافی رش ہوتا تھا، لیکن اب لوگ ریکھا کے سموسے کھانے کو ترجیح دیتے۔

چندو غصے میں آ گیا۔ اُس نے جل کر کہا، جب سے یہ عورت آئی ہے میرے سارے گاہک چھن گئے۔ میری آمدنی آدھی رہ گئی ہے۔

پھر اچانک اس کے ذہن میں ایک چالاک خیال آیا۔ اگر میں اسے اپنے ساتھ کام پر رکھ لوں تو سارا کام وہ کرے اور پیسہ میں کماؤں۔

چندو نے یہ تجویز لے کر ریکھا کے پاس پہنچا۔ اُس نے کہا، آؤ میرے ساتھ کام کرو ہم مل کر اچھا منافع کمائیں گے۔

لیکن ریکھا نے صاف انکار کر دیا۔ اُس نے کہا میں کسی اور کے لیے نہیں، اپنے بچوں کے لیے کام کرتی ہوں۔

ریکھا کے انکار پر چندو حلوائی کا غصہ آسمان کو چھونے لگا۔
اُس نے ایک چالاکی سوچی۔
اپنے ایک آدمی کو جعلی پولیس والے کے بھیس میں ریکھا کے پاس بھیج دیا۔

وہ آدمی ریکھا کے پاس آیا اور سخت لہجے میں بولا
چلو یہاں سے! اب سے تم یہاں سموسے نہیں بیچو گی۔

ریکھا حیران رہ گئی۔
لیکن کیوں جناب؟ میں یہاں باقاعدگی سے ٹیکس ادا کرتی ہوں۔

اسی وقت ایک حقیقی پولیس والا وہاں آ پہنچا۔
یہ وہی پولیس والا تھا جو روز ریکھا کے ہاتھ سے سموسے کھاتا تھا۔

اس نے فوری طور پر اُس جعلی پولیس والے کو پہچان لیا۔
تم کون ہو؟ تم پولیس والے نہیں لگتے۔
کچھ دیر پوچھ گچھ کے بعد وہ پکڑا گیا۔

مجھے معاف کر دیں جناب جعلی پولیس والے نے کہا
میں نے یہ سب چندو حلوائی کے کہنے پر کیا تھا۔

یہ سن کر اصل پولیس والا غصے سے آگ بگولا ہو گیا۔
اس نے فوری طور پر چندو اور اُس کے آدمی دونوں کو گرفتار کر لیا۔

اب ریکھا کے دل سے خوف نکل چکا تھا۔
وہ آزاد دل سے خوشی خوشی پلیٹ فارم پر سموسے بیچنے لگی۔

کچھ دنوں بعد موہن کی طبیعت بھی ٹھیک ہو گئی۔
اب وہ بھی ریکھا کے ساتھ روز کام پر جانے لگا۔

میاں بیوی دونوں مل کر محنت کرتے
گرم سموسے بناتے اور چٹنی کے ساتھ بیچتے۔

دونوں کی کمائی خوب ہونے لگی۔
پیسے جمع ہوئے خواب پورے ہونے لگے۔

آخرکار اُنہوں نے اپنے لیے ایک کنکریٹ کا خوبصورت اور بڑا گھر بنوایا جس میں ہر آسائش اور سہولت موجود تھی۔

ریکھا کی محنت، صبر اور ہمت نے آخرکار اُسے کامیابی دے دی۔
اور یہ ثابت کر دیا کہ
 جو محنت سے نہیں ڈرتے
کامیابی انہی کے قدم چومتی ہے۔

اس کہانی سے ہمیں سیکھنے کو ملتا ہے کہ مشکل وقت چاہے جتنا بھی بڑا ہو، اگر ہم ہمت، صبر اور عقل سے کام لیں تو حالات کو بدلا جا سکتا ہے۔ ریکھا نے ہار نہیں مانی، بلکہ حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ اُس نے اپنی صلاحیت کا استعمال کیا، محنت کی، اور اپنی فیملی کے لیے ایک نئی راہ نکالی۔ یہ کہانی ہمیں سکھاتی ہے کہ اگر ہم محنت اور دیانت سے کام کریں، تو کوئی بھی پریشانی ہمیں روک نہیں سکتی۔ زندگی میں کامیابی اُنہی لوگوں کو ملتی ہے جو ہار نہیں مانتے۔



یہ کہانی آپ کو کیسی لگی؟
کمنٹ کر کے ضرور بتائیں، اور ایسی مزید متاثر کن کہانیاں پڑھنے کے لیے ہماری ویب سائٹ  World Ki Best Stories کو ضرور فالو کریں۔ اور اپنے دوستوں اور رشتے داروں کے ساتھ شئیر کرنا بالکل نہ بھولیں تاکہ انہیں بھی آپکی وجہ سے کچھ سیکھنے کو ملے۔ 
روز کچھ نیا سیکھیں، کچھ نیا سوچیں، اور نئی زندگی کا آغاز کریں۔ پھر ملینگے ایک اور کہانی کے ساتھ۔ جب تک اپنا خیال رکھیں۔
اسٹوری کوئین اسماء 

Read More Stories 






I hope you liked this moral story in urdu. You can read more interesting Moral story, moral stories, moral Story in Urdu, Short moral story in urdu, Moral story in urdu for adults, Moral story in urdu for students, Very short stories with moral, and much more interesting stories just right here motivational stories and fairy tales stories for kids. 

Also, read more interesting moral posts in Urdu. 

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.